ان دنوں ساتویں میں پڑھتی تھی۔ زندگی کے اسرار و رموز سے ناواقف تھی۔ ہمارے گھریلو حالات زیادہ اچھے نہ تھے۔ والد صاحب صبح کام پر جاتے شام کو لوٹتے۔ کم تنخواہ میں کھینچ تان کر گزارا ہورہا تھا۔ مجھے اس کا علم نہ تھا کہ معاشی تنگی اور غربت کے مسائل کیا ہوتے ہیں۔ والدین چاہے جتنے پریشان ہوں، اولاد کی ضرورتوں کو بخوبی پورا کرنا چاہتے ہیں۔ بچپن کا سہانا وقت سہیلیوں کے ساتھ کھیل کود میں گزر گیا۔ ہوش سنبھالا تو پابندیاں لگ گئیں کہ پاس پڑوس میں نہیں جانا، گھر سے باہر نہیں جھانکنا اور سہیلیوں کے ساتھ نہیں گھومنا۔ لڑکیاں اس عمر میں دوستی کو عزیز رکھتی ہیں، جتنا سہیلیوں سے پیار ہوتا ہے۔ اتنی تنہائی کم ہوتی ہے اور اس احساس کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ پابندیاں لگنے سے میں گھٹن کا شکار ہوگئی۔ بوریت دور کرنے کو اس کے سوا چاره نہ تھا کہ چھت پر جاکر وقت گزاروں۔ چھت سے گلی نظر آتی تھی۔ اردگرد کے مکانات کی چھتیں بھی دکھائی دیتی تھیں۔ یہ میرے لیے دلچسپ نظارے تھے، جب سر پر کھلا آسمان ہو اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو، روح کے دریچے وا ہوجاتے ہیں۔ ماں پڑھی لکھی نہ تھی، عام سی گهریلو عورت کہ جسے بچے پالنے کے سوا کسی دوسرے کام سے سروکار نہ تھا۔ سالانہ امتحانوں کے بعد کچھ دنوں کی چھٹیاں ہوگئیں، میں نے کہا کہ ماموں جان کے گھر چلتے ہیں۔ ماں نے جواب دیا۔ آوارہ مزاج لڑکیوں کی طرح کیا تجھے گھومنے پھرنے کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔ مشکل سے تعلیم دلوا رہے ہیں۔ کچھ تو ہمارا احساس کر. چھٹیاں ہیں تو گھر کے کام کاج میں میرا ہاتھ بٹا۔ کیا تو نے کوئی کام نہیں سیکهنا؟ ساری عمر ایسی ہی نکمی رہے گی، گهر کیسے بسائے گی؟ ماں کی اتنی لمبی تقریر سے میں بدمزہ ہوگئی، جی چاہا سامنے جو گملا ركها ہے اس کو ٹھوکر مار کر توڑ دوں۔ ماں کی جھاڑ سن کر میں رونے بیٹھ گئی۔ تبھی اتفاق سے نانی اماں گائوں سے آگئیں۔ انہوں نے مجھے روتے دیکھا تو بہت دکھی ہوئیں۔ کہنے لگیں۔ حامده یہ کیوں رو رہی ہے؟ اس کا کوئی مر گیا ہے شاید. ماں نے غصے میں تڑاخ سے جواب دیا۔ نانی اماں کا کلیجہ ہل گیا، بولیں۔ حامده کیا میں نے تجھے ایسے پالا تھا جیسے تو اس کو جھڑکتی ہے۔ یہ بہت بری بات ہے۔ اس عمر میں بچیوں کا دل ہاتھ میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیروں میں روندنے کی روش نہیں اچھی۔ تم پر ایسی ہی بھاری ہے تو میرے ساتھ اسے بھیج دو یہ وہاں چھٹیاں گزار لے گی۔ اماں بولیں۔ یہ تو پہلے ہی دن سے چاہتی تھی کہ ایسا ہو، چلو اچھا ہے اب اس کو لے جائیے۔ کم از کم کام سے تو اس کی جان بچی رہے گی۔ نانی چار دن رہیں، ان کے سمجھانے پر ماں نے مجھ کو ساتھ بھیج دیا، میں بہت خوش ہوئی۔ نانی کا گائوں مجھ کو پسند تھا۔ وہاں بچپن کی سہیلیاں بھی تھیں جن سے ملنے کا ارمان رہتا تھا۔ انیلا، نمره اور صبا سے میری بچپن سے دوستی تھی۔ دوسری کلاس میں تھی۔ ان دنوں ہم کچھ عرصہ گائوں میں نانی کے گھر رہے تھے، بعد میں ابو کی نوکری لاہور میں لگ گئی تو ہم لوگ شہر
نمره کی گلی میں ایک لڑکا رہتا تھا، جس کا نام نعمان تھا۔ وہ بھی بچپن میں ہمارے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ جب بے دھڑک گهروں میں آنا جانا ہو تو لوگ اپنوں جیسے ہی لگتے ہیں۔ گائوں آتے ہی میں نے نمره کا پوچھا۔ اسے بھی پتا چل گیا کہ میں آگئی ہوں، وہ اسی وقت دوڑی آئی اور مجھے اپنے ساتھ گھر لے گئی۔ بچپن کی سنگت بھی کیا کمال شے ہے۔ ساتھ بیتے ہوئے دن بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ زندگی بھر ان سنہرے دنوں کی یاد دل سے نہیں جاتی۔ نمره کو دیکھتے ہی بچپن کی یادیں ذہن میں طوفان اٹھانے لگیں۔ جی چاہا کہ کھیتوں میں نکل جائیں۔ لمبی پگڈنڈیوں پر دوڑیں اور نہر میں پتھر پھینکیں، چھینٹے اڑائیں... ماموں جان کا ڈر نہ ہوتا تو میں اسی وقت کھلی فضا میں دوڑ لگا دیتی۔ باتوں باتوں میں صبا اور سائرہ کے بارے میں پوچھا۔ نمره نے بتایا کہ صبا کی شادی ہوگئی ہے اور سائرہ پڑھ رہی ہے، ان سے ملنے کو بھی جی بے قرار تھا۔ نانی اماں سے اجازت لے کر میں نمره کے گھر آگئی۔ جونہی ہم گھر کے اندر جانے لگے سامنے سے نعمان آتا دکھائی دیا۔ وہ اب کافی بڑا اور لمبا ہوگیا تھا۔ یہاں کی فضا میں یوں بھی لڑکے خوش شکل، صحت مند اور لمبے چوڑے ہوجاتے ہیں۔ خالص دودھ، مکھن، اصلی گندم کا آٹا اور دیسی انڈے، مرغیاں، اچھی خوراک، کھلی صاف ستهری آب و ہوا۔ واه! کیا آئیڈیل زندگی ہوتی ہے دیہات کی بھی۔ شہر میں اچھے اسکول کالج تھے۔ روزگار کے بہتر مواقع تھے۔ تبھی لوگ دیہات کی زندگی تج کر ادهر آبستے تھے، جتنا سکون یہاں تها کون ایسی پرسکون جگہ چھوڑ کر جانا پسند کرتا ہے۔ میرے بچپن کی یادیں قدم قدم پر بکھری ہوئی تھیں اور انہی یادوں میں ایک نعمان بھی تھا۔ وہ اب زیادہ خوبصورت ہوگیا تھا، سترہ سال کا خوبرو جوان جس سے میری عمر کی لڑکیاں حجاب کرتی تھیں لیکن مجھے حجاب محسوس نہ ہوا کہ بچپن کی پہچان تھی۔ بے اختیار منہ سے نکلا نعمان کیسے ہو؟ انجان بن کر جارہے ہو۔ بات بھی نہیں کرتے۔ وہ مسکرا دیا۔ سلام کیا اور قریب آکر بولا۔ شنگری تم آئی ہو، میرا نام شاہینہ تھا لیکن پیار سے وہ مجھ کو شنگری مصری کہتا تھا، جس کا مطلب تھا صاف ستهری مصری کی ڈلی۔ چونکہ مصری میٹھی ہوتی ہے اور اس کے نام میں اس کا بے پناہ پیار چھپا تھا۔ جس کا مجھے اندازه نہ تھا۔ تھوڑی دیر تک ہم نے باتیں کیں، پھر میں نانی کے گھر چلی گئی اور وه اپنی راہ ہولیا۔ آج بہت خوش تھی کہ نعمان سے ملاقات ہوئی تھی، اس نے بتایا کہ میٹرک پاس کرلیا ہے۔ اب شہر کے کالج میں داخلہ لینا ہے۔ اس کا ارادہ ڈینٹل سرجن بننے کا تھا۔ جس کے آدرش اونچے ہوں اس کو مستقبل میں اعلی مقام مل ہی جاتا ہے بشرطیکہ راہ سے نہ بھٹکے اور انسان اپنے عزائم کی تکمیل میں دلجمعی سے لگا رہے مگر لڑکپن کی عمر میں بہکنے کا اندیشہ بھی بھر پور ہوتا ہے۔ نعمان سے ملاقات کے بعد اسی شام چھت پر چڑھی تو وہ بھی اپنے گھر کی چھت پر موجود تھا۔ مجھ کو دیکھ کر خوش ہوگیا کہنے لگا۔ سوچ ہی رہا تھا۔ اے کاش تم چھت پر آجائو، خدا نے سن لی اب ایک اور مراد مانگنے کو دل چاہ رہا ہے۔ وہ کیا؟ میرے سوال کے جواب میں بولا کہ تم ہمیشہ کے لیے مجھے مل جائو۔ میں شرما گئی، اس لمحے احساس ہوا کہ اب میں بڑی ہوگئی ہوں، مجھ کو اس طرح لڑکوں سے بات نہ کرنی چاہئے، تاہم اس کا پیار سے بلانا مجھے برا نہ لگا۔ اس بات کا کسی سے ذکر نہ کیا اور بات دل میں رکھ لی۔ نمره کی دوستی نعمان کی بہنوں سے تھی، وہ روز وہاں جاتی تھیں۔ ایک دن مجھے بھی لے گئی۔ اس کے بعد میں روز وہاں جانے لگی، اس کی بہنیں رافیعہ اور سعدیہ جو میری بہت آئو بھگت کرتی تھیں۔ خوش ہوکر ملتی تھیں۔ سچ بات یہ ہے کہ وہ میرے دل میں اپنے بھائی کی محبت کو جاگزیں کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں۔ نعمان کی بہنیں ہم دونوں کی ملاقات کا بندوبست کرتیں کہ ہم آپس میں بات کرسکیں۔ ان کی خواہش تھی ایک شہری لڑکی جو پڑھی لکھی ہو، ان کی بهابهی بنے۔ اس کی ماں بھی مجھے پسند کرتی تھی، پاس بٹھا کر شہر کا احوال دریافت کرتی تھی۔ انہی دنوں نانی بیمار پڑ گئیں۔ ممانی بچوں کی پرورش میں مصروف ہوتیں، نانی کی دیکھ بھال میں کرتی، تب انہوں نے امی کو کہا کہ اسے میرے پاس چھوڑ دو۔ گائوں میں بھی آٹھویں تک اسکول ہے یہ یہاں پڑھ لے گی۔ ماں کی بیماری کی وجہ سے امی نے مجھے گائوں میں چھوڑ دیا۔ میں نے مڈل گرلز اسکول میں داخلہ لے لیا اور مستقل ماموں کے گھر رہائش اختیار کرلی، ماموں کی سرکاری نوکری تھی، وہ دفتر چلے جاتے نانی سو جاتیں اور ممانی گھر کے کام میں مصروف ہوجاتیں، میں اسکول سے آکر کهانا کهاتی اور نعمان سے ملاقات کرنے چھت پر چلی جاتی۔ گھر کی چھتیں ملی ہوں تو منڈیر پھلانگ کر متصل چهت پر پہنچ جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ایک دوپہر جبکہ سب سو رہے تھے اور گرمیوں کے دن تھے میں چھت پر گئی۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے وہاں نعمان بھی موجود تھا۔ باتوں باتوں میں وه چهت پھلانگ کر ہماری جانب آگیا، کیونکہ ادهر كمره بنا ہوا تھا اور ان کی چھت پر بھری دوپہر کی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ ہم دونوں کمرے میں بیٹھ کر آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگے۔ پھر پتا نہ چلا کب زبان گنگ ہوگئی اور صرف احساس باقی رہ گیا۔ ہوش آیا تو کاروان احتیاط گزر چکا تھا اور دکھ سے میں رو رہی تھی۔ وہ معافی مانگ رہا تھا کہہ رہا تھا کہ تم فکر مت کرو، میں کل ہی اپنی والدہ کو تمہاری نانی کے پاس رشتے کے لیے بھیج رہا ہوں۔ اس نے صحیح کہا تھا۔ اگلے روز نعمان کی والدہ میرا رشتہ مانگنے آگئیں۔ نانی امی نے کہا کہ میری نواسی اپنے والدین کی ملکیت ہے، رشتہ کے بارے میں رائے دے سکتی ہوں لیکن میں خود اس کا رشتہ طے کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اپنے داماد اور بیٹی سے بات کروں گی، پھر آپ کو جواب دوں گی۔ اس دوران نعمان کا داخلہ شہر کے کالج میں ہوگیا اور وہ ایف ایس سی کرنے چلا گیا۔ ایک ماہ بعد ہی پتا چل گیا کہ میں مشکلات میں گھر چکی ہوں۔ اب کس سے اپنی مشکل کہتی۔ نانی کے پاس بھی میرے مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا۔ مگر کہے بنا چارہ نہ تھا۔ کہنا چاہا زبان نے ساتھ نہ دیا، امی آگئیں میری جان پر بن گئی۔ نانی نے امی سے کہا کہ نعمان کی والدہ شاہینہ کا رشتہ مانگ رہی ہیں۔ وہ بولیں کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کے والد نہ مانیں گے، ابھی اس کی عمر ہی کتنی ہے۔ صرف سولہ برس۔ ابھی سے شادی کی کیا پڑی ہے۔ غرض امید کے چراغ گل کرکے وہ واپس چلی گئیں۔ ایک ماہ بعد نعمان آیا میں نے اس کو اپنی مشکل بناکر کہا کہ والدین کو میرے والدین کے پاس لاہور بھیجو، ساتھ اپنی والدہ کو بھی بتادو کہ میں مشکل میں ہوں، وه تاخیر نہ کریں ورنہ میری موت واقع ہوسکتی ہے۔ نعمان کی امی لاہور آکر رشتہ مانگنے پر راضی نہیں تھیں۔ مگر جب پتا چلا کہ ان کے بیٹے کی وجہ سے میری جان پر بنی ہے تو انہوں نے تاخیر سے کام لینا غیر ضروری سمجھا اور لاہور آکر امی ابو سے دست سوال دراز کیا۔ ابو نے ان لوگوں کو دیہاتی کہہ کر نخوت سے رشتہ ٹھکرا دیا۔ امی نے بھی کہا۔ بہن جی جب شابینہ کے والد نہیں مان رہے تو میں کیا کرسکتی ہوں۔ انہوں نے کافی منت و سماجت کی مگر امی ابو کے انکار کو اقرار میں نہ بدل سکے۔ اس روز میں کمرے میں بیٹھی دعا کررہی تھی کہ میرے والدین مان جائیں کیونکہ یہ میری محبت کا معاملہ نہ تھا، زندگی اور موت کا سوال تھا۔ تاہم کیا ہوسکتا تھا۔ والدین کو اصل صورت حال کی خبر ہوتی تو شاید مان جاتے یا موت کے گھاٹ اتار دیتے۔ خوف سے کانپ اٹھی، طرح طرح کے وسوسے ستانے لگے۔ نانی ساتھ آئی تھیں۔ جب وہ لوگ ناامید ہوکر چلے گئے تو میں نانی کے گلے الگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی مگر کیا کرلیتیں وہ مجھ سے پیار کرتی تھیں، اصل صورت حال سے وہ بھی لاعلم تھیں۔ سوائے نعمان اور اس کی والدہ کے میں نے کسی کو اس خوفناک راز سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ ایک نئی زندگی میرے وجود میں پرورش پا رہی تھی اور زمانہ اس خوفناک راز سے بے خبر تھا لیکن جلد ہی یہ راز راز نہ رہے گا۔ یہ سوچ کر میرے اوسان خطا ہورہے تھے۔ جلد ہی قدرتی طور پر سب جان جائیں گے کہ میں مجرم ہوں۔ یہ سوچ کر جھرجھری آجاتی تھی۔ نانی پهر بهی تحمل والی تھیں، امی تو پرکا کوا اور بات کا بتنگڑ بنانے کی ماہر تھیں، جبکہ رائی کا پہاڑ بنانے کی ضرورت نہ تھی۔ یہاں پہاڑ موجود تھا جو میرے سر پر گرنے والا تھا۔ نانی کے ساتھ چلی آئی وقت گزرتا جارہا ہے۔ ایک بار پھر چھت پر جاکر نعمان سے کہا کہ جو چاہے ہو تمہارے والدین کو رشتہ مانگنا چاہئے۔ ایک بار تمہیں سو بار جب تک میرے والدین ہاں نہیں کردیتے۔ ان کے گھر میں کھچڑی پکی۔ اب کی نعمان کی امی نے اپنے شوہر کو بتادیا کہ یہ معاملہ ہے۔ دونوں خاندانوں کی عزت پر بنی ہوئی ہے، ان لوگوں کو پتا نہیں ہے۔ ہم کو پتا ہے لهذا ... دوباره ان کے پاس چلو اس دفعہ لالچ دو کہ ہم شاہینہ کے نام زرعی زمین کردیں گے۔ جتنا کہو گے زیور چڑھائیں گے جو شرط چاہو منوالو مگر رشتے سے انکار نہ کرو۔ امی ابو کے پاس وہ پھر آئے۔ بہت گڑگڑائے خالہ جی نے اپنا دوپٹہ امی کے پائوں پر رکھ دیا کہ آپ یہ رشتہ دے دیں، خالہ جی کے شوہر نے ابو کے پائوں چھو کر کہا ہم پر احسان کردو کبھی یہ احسان نہ بھولیں گے۔ میرے والدین ٹس سے مس نہ ہوئے بلکہ حقارت سے انہیں ٹھکرا دیا۔ یہ خبر نہ تھی کہ گھر کے اندر ان کی عزت کی دشمن ان کی بیٹی ایک زہریلے سانپ کی مانند چھپی بیٹھی ہے۔ بم، ایسی کوئی بلا پهٹنے کو ہے۔ بے عزت ہوکر وه | لوگ لوٹ آئے جو میرے والدین کی عزت بچانا چاہتے تھے۔ نعمان نے کہا اب کیا کریں۔ تمہارے والدین تو کسی صورت مانتے نہیں۔ بہتر ہے کہ ان کو صورت حال سے آگاہ کردو شاید مان جائیں۔ ہرگز نہیں۔ وہ مجھے مار دیں گے مگر تم سے رشتہ نہ کریں گے۔ الٹا تم مصیبت میں پھنس جائو گے کیونکہ وہ مالی لحاظ سے کم حیثیت سہی ذات پات پر یقین رکھنے والے تھے اور نعمان کو اپنی ذات سے کم تر کہتے تھے۔ نعمان اپنے جذبوں میں سچا تھا، وہ اپنی غلطی پر نادم تھا اور مجھے بے سہارا چھوڑنا نہ چاہتا تھا۔ اب ہم دونوں کے پاس کورٹ میرج کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ تاہم اس کے والدین شش و پنج میں تھے، چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ عزت سے حل ہو۔ جب ان کی کچھ سمجھ میں نہ آیا تو انہوں نے گائوں کے کچھ معززین کی منت کی کہ ساتھ چلیں اور رشتہ کروائیں۔ وہ لوگ ابو کو بھی جانتے تھے کیونکہ بنیادی طور پر ہم بھی اسی گائوں کے رہنے والے تھے۔ جب اتنے سارے لوگ رشتے کے لیے آئے تو ابو سوچ میں پڑ گئے کہا کہ آپ سب لوگ ہی یہ چاہتے ہیں کہ میں بیٹی ان دیہاتیوں کو دوں۔ آخر ایسی کیا بات ہے۔ بات کسی کے منہ سے کیا نکلتی جب کوئی وہ بات جانتا ہی نہ تھا جو نعمان اس کے والدین اور مجھے معلوم تھی۔ بہرحال ان بزرگوں نے ابو کی منت کی تو کہنے لگے ٹھیک ہے اس شرط پر بیٹی نعمان کو دوں گا یہ ڈینٹل سرجن بن کر دکھائے۔ یہ تو ’’جوئے شیر لانے والی بات تھی نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی... اب کیا کریں ہم نے موت کے منہ میں جانے سے بچنے کے لیے دوسرا | راستہ اختیار کیا کہ کورٹ میرج کرلیتے ہیں۔ کورٹ میرج کے لیے شہر جانا لازمی تھا۔ نعمان کے والد نے کہا کہ نانی سے کہہ کر والد کے گھر شہر چلی جائے۔ وہاں سے ہم شاہینہ کو کورٹ لے جائیں گے، گائوں سے ساتھ لے جانا محال ہے۔ میں نے نانی سے اصرار شروع کردیا کہ شہر جانا ہے، امی ابو کے لیے اداس ہوں۔ پہلے تو وہ سنی ان سنی کرتی رہیں، کہا تمہارے ماموں فارغ ہوجائیں گے تب چلیں گے، اسکول سے چھٹیاں کروگی؟ تین ماہ ہو چکے رشتہ طلب کرتے اور کامیابی نہ ہوئی تھی۔ اب مزید وقت کی گنجائش نہ تھی۔ کسی صورت نانی کو راضی کیا اور میں والدین کے پاس آگئی۔ نعمان نے سمجھا دیا تھا کہ کب کہاں کس وقت تم نے آنا ہے، میں ابو اور وكيل تم کو کورٹ لے جائیں گے۔ رات کو میں نے نعمان کی دی ہوئی نشہ آور گولیاں گهر والوں کو دودھ میں گھول کر پلادیں اور وہ گہری نیند سو گئے تو میں گھر سے نکل آئی، جہاں نعمان نے بتایا تھا وہاں سب میرا انتظار کررہے تھے۔ نعمان کے والد اس لیے ساتھ دے رہے تھے کہ وہ میرے گھر والوں کی عزت اور اپنے ہونے والے پوتے پوتی کی جان بچانا چاہتے تھے اور اپنی نسل کو اپنا نام دینا چاہتے تھے۔ بہ صورت دیگر ایک انسانی جان ضائع ہوسکتی تھی اور ان کے بیٹے کو اگر پولیس پکڑ کر لے جاتی تو یہی معاملہ گمبھیر ہوسکتا تھا، وہ شریف لوگ تھے۔ ہر صورت میں بے عزتی سے ڈرتے تھے۔ میری بدنامی کا بھی ان کو اندیشہ تھا۔ لہذا ناامید ہوکر انہوں نے دوسرا راستہ کورٹ میرج والا چن لیا۔ میں ان کے ہمراہ کورٹ گئی اور نکاح ہوگیا، جب واپس گهر آئی تو اس وقت گھر والے سب اٹھ گئے تھے۔ امی نے پوچھا کہ اس وقت کہاں سے آرہی ہو۔ میں نے صاف صاف بتادیا کہ میں نے نعمان سے نکاح کرلیا ہے۔ اگر نہ کرتی تو آپ کی اور ان کی بے عزتی ہوتی۔ شرمندگی الگ ہوتی۔ میں اصل صورت حال بتاسکی اور نہ آپ سمجھ سکے۔ سب گھر والے پریشان ہوگئے کہ یہ کیسی باتیں کررہی ہے۔ انہوں نے اسی وقت تیاری کی اور اپنے گائوں آگئے، مجھے موقع ہی نہیں دیا کہ میں نعمان کو کچھ بتا سکوں۔ یہاں ہمارے سارے رشتہ دار تھے سب کو ابو نے اکٹھا کیا اور کہا کہ ہم نعمان کے باپ پر کیس دائر کرتے ہیں، ہماری بیٹی کو ورغلایا ہے اور نعمان سے اس کی طلاق کراتے ہیں۔ دادا، دادی، چچا، ماموں، نانی سبھی ساتھ گئے، انہوں نے جب طلاق کی بات کی تو نعمان کے والد نے کہا کہ ایسی بات نہ کریں کیونکہ ایسی صورت میں طلاق نہیں ہوتی، جب تک کہ ولادت کا مرحلہ نہ آجائے۔ آپ کی بیٹی جس مشکل میں ہے آپ کو نہیں پتا۔ لیکن ہم کو معلوم ہے اسی لیے عزت سے رشتہ چاہتے تھے، آپ نے نہیں دیا ہم نے مجبور ہوکر کورٹ میرج کی۔ اب بھی وقت ہے اس سے پہلے کہ بات پھیلے اور بدنامی ہو عزت سے رخصتی دے دیں۔ والد اور چچا سخت برہم تھے، کہنے لگے۔ رخصتی کی بات کرتے ہو ہم تمہارے بدکردار بیٹے اور اپنی بدچلن لڑکی کو ایک ساتھ جہنم رسید کریں گے، کاش ہم بندوق ساتھ لے آتے۔ کچھ بزرگ درمیان میں آگئے۔ وہ لوگ گھر آگئے۔ مجھے اندازہ تھا کہ میری خیر نہیں۔ جب ان کے آنے کی چاپ سنی میں نے کھڑکی کھولی اور چچا کے گھر سے ہوتی دوسری طرف نکل گئی اور دوڑ کر نعمان کے گھر پہنچ گئی۔ اتنے میں نعمان پولیس کو لے کر آگیا تھا کہ میرے گھر والوں کے تیور بھانپ چکا تھا۔ اس نے کہا چلو میرے ساتھ میرے سسر اور نعمان کے ہمراہ میں پولیس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ نعمان کے بڑے چچا خود پولیس میں تھے۔ وہ ہم کو محفوظ جگہ لے آئے اور میرے بیان دوبارہ کرائے میں نے یہی بیان دیا کہ مرضی سے نکاح کیا ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ والد اور بھائی بہت غصے میں تھے مگر مجسٹریٹ کے سامنے بول نہ سکے۔ نعمان کے ساتھ کراچی آگئی اور دوباره لوٹ کر گائوں نہ گئی۔ اب میں اپنے گھر میں خوش و خرم ہوں، زندگی اچھی گزر رہی ہے۔ جس انسانی جان کو بچانے کی خاطر اتنا بڑا قدم اٹھایا تھا وہ میرا بیٹا چودہ برس کا ہوچکا ہے، مگر اس نے کبھی ننهیال کی صورت نہیں دیکھی، کیونکہ میرا | میکے سے تعلق اسی روز ختم ہوگیا تھا جب میں نے مجسٹریٹ کے روبرو بیان دیا تھا والدین کو چھوڑ کر شوہر کے ساتھ چلی گئی تھی۔ جانتی ہوں کہ ہم سے غلطی ہوئی جو کچھ ہوا غلط ہوا سب کچھ کمر عمری اور نادانی میں ہوا۔ اولاد کو اپنی عزت اور والدین کے ناموس کا پاس رکھنا چاہئے۔ ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہئے کہ جس سے ماں باپ کا دل دکھے، ان کی دل آزاری ہو مگر انسان خطا کا پتلا ہے، بچوں سے غلطیاں ہوتی ہیں تو والدین کو ہی پڑتا ہے۔ اپنے کئے پر نادم ہوں۔ والدین مل جائیں تو ان کے پائوں پکڑ کر معافی مانگ لوں۔ اپنے خدا سے بھی شرمندہ ہوں۔ ہر وقت عاجزی سے بخشش کی دعا | کرتی رتی ہوں لیکن والدین کو بھی چاہئے کہ جب اولاد خود سر اور خطا کار ہوجائے تو وہ اس کو رسوا ہونے سے بچا لیں، ضد نہ کریں، ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اب امی ابو روتے ہیں۔ کہتے ہیں کاش جب نعمان نے رشتہ مانگا تھا اور لوگ بھی اچھے تھے تو ہم کو انہیں رشتہ دے دینا چاہئے تھا۔ خاندان اور گائوں بهر میں اتنی بدنامی تو نہ ہوتی۔ اب باقی بہنوں کا مستقبل تاریک ہے۔ گائوں والے کہتے ہیں یہ بھی اسی کی بہنیں ہیں۔ دادا اور چچا بھی سخت پچھتاتے ہیں کہ کاش بات وقت پر مان لیتے اتنی ذلت تو نہ اٹھانا پڑتی۔
0 Comments