اكمل ایک خوش شکل، کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا تھا۔ وہ اپنے اسکوٹر پر لڑکیوں کو آئس کریم کھلانے لے جاتا تھا اور جب کوئی لڑکی ذرا سنجیدہ ہو تو اس کی دلکش شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتی، وہ اس لڑکی سے تعلق توڑ لیتا تھا۔ خواه وه بے چاری کتنا روتی، بیمار ہوجاتی مگر اکمل پھر پلٹ کر نہ دیکھتا۔ کچھ لڑکیوں نے اس کو بددعا بھی دی کہ وہ کبھی خوش نہ رہ سکے گا۔ وہ یہی جواب دیتا کہ اس نے کبھی کسی لڑکی سے شادی کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ انہی لڑکیوں میں زبیده بھی تھی۔ زبیده ایک متوسط طبقے کی معمولی صورت لڑکی تھی جو یونیورسٹی میں اکمل کی ہم جماعت بن گئی تھی۔ زبیده اس کو پسند کرتی تھی مگر اس نے کبھی اکمل سے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔ وہ بلا کی ذہین اور اپنے محبوب کی نفسیات کو خوب سمجھتی تھی لہذا زبان سے اقرار کی بجائے اندر اندر اپنے دل کے مندر میں اکمل کی پوجا کرنے لگی۔ وہ زبیده کو محض ایک اچھی دوست اور کلاس فیلو ہی سمجھتا تھا۔ بارہا اس نے زبیدہ کو اپنے اسکوٹر پر بٹھا کر شہر کے اس بس اسٹاپ تک چھوڑا تھا جہاں سے وہ دوسری بس لے کر اپنے گھر جاتی تھی۔ زبیده اکمل کو معصوم اور بے ضرر سی لگتی کیونکہ کبھی اس نے اظہار محبت نہ کیا تھا۔ کبھی جھگڑا نہ کیا تھا، کوئی توقع نہ لگائی اور نہ ہی روٹھنے کی اداکاری اس امید پر کرتی تھی کہ وہ اس کو منائے گا۔ زبیده دراصل یہ جانتی تھی کہ اکمل ان مردوں میں سے ہے جو خود روٹھ کر عورت سے امید لگاتے ہیں کہ وہی اس کو منائے۔ وہ خود دیوتا بن کر اس کے قدموں کو اپنے آنسوئوں سے دهوتی رہے۔ وہ زبیده سے کہتا تھا کہ تم ایک ذہین اور اچھی لڑکی ہو تبھی تمہارا میرا ساتھ بے حد خوشگوار ہے لہذا کبھی مجھ پر عاشق ہونے کی کوشش نہ کرنا۔ عشق میرے بس کی بات نہیں۔ یہ بہت کٹھن معاملہ ہے اور میں ان کھٹنائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ زبیده کا رواں رواں اس کے عشق میں چتا کی آگ کی مانند جلتا ہے۔ جس کا دھواں اس کے وجود کو خاکستر کرنے کو تیار ہے۔ ایک بار اس نے مذاق ہی مذاق میں اكمل سے کہا تھا کہ اگر ڈپارٹمنٹ کی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ بھی اس کے سحر میں آگئی تو وہ کیا کرے گا۔ پہلے تو یہ کہوں گا کہ دو دفعہ اچھے صابن سے منہ دهوكر آئینہ میں اپنی معمولی صورت کو دیکھو اور پھر اپنی اوقات پر غور کرو. اکمل نے اس کو معمولی شکل و صورت اور غربت کا طعنہ بڑے پرغرور طریقے سے دیا تھا۔
ایک بات سنو، ہو سکتا ہے وہ وقت بھی آئے جب تم مجھ سے کچھ مانگو اور میں نہ دے سکوں۔ زبیدہ نے اپنے جذبات پر قابو پاکر جواب دیا۔ اس کو اندازه ہو گیا تھا کہ اس کے پیچھے بھاگنے اور اس پر عاشق ہونے والی لڑکیوں نے عورت کی قدر و منزلت اس کی نظر میں کھو دی ہے۔ زبده مزاج کی بہت گہری تھی۔ معمولی شکل و صورت والی ایک غریب گھرانے کی لڑکی کو زندگی کی تلخ حقیقتوں کا صحیح ادراک تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اکمل ایسے مغرور انسان کو باآسانی نہیں پا سکتی۔ ایک سمجهدار عورت کے متحمل مزاج میں پوشیدہ ٹھکرائے جانے کا درد اور اس کو سہنے پر شدید انتقامی جذبے کا جنم اس کے ساتھ خاکستر ہو کر کسی کو اپنانے کی فطرت، اس میں موجود تھی۔ اس نے سوچ لیا کہ وہ اکمل کو جھکا کر رہے گی۔ اسے بس مناسب وقت کا انتظار تھا۔ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل ہو گئی۔ ساتھ پڑھنے والے سب طالب علم جدا ہوگئے۔ زبیدہ نے بھی کوشش کر کے اپنی محنتی فطرت اور ذہانت کی وجہ سے ایک اچھی ملازمت حاصل کرلی۔ اس کا رابطہ اکمل سے قائم رہا۔ اکمل نے اپنے والد کا کاروبار سنبھال لیا۔ تھوڑے دنوں بعد اس نے زبیده کو بڑی خوشی کے ساتھ اپنی شادی کا سندیسہ سنا دیا اور کارڈ بھی لاکر دیا۔ اس کارڈ کو دیکھ کر زبیده کی وہی کیفیت تھی جو ذبح ہونے والی مرغی کی کہ جب تک اس کی جان پوری طرح نہ نکلے وہ تڑپتی رہتی ہے۔ اس نے اكمل سے شادی میں آنے کا وعدہ کیا مگر باوجود کوشش وہ شادی میں نہ جا سکی۔ اس کی حالت ایسی تھی جیسے کسی غریب سے اس کا قیمتی اثاثہ چھین لیا جائے۔ اکمل اس کے دل کی گہرائیوں میں موجود تھا مگر وہ اس سے بے خبر تھا۔ وہ کبھی زبیده کی آنکھوں میں محبت کی خاموش تحریروں کو نہ پڑھ سکا۔ اسے محض ایک سچا بہی خواہ اور مخلص دوست سمجھتا رہا کہ جس کے ساتھ وہ اپنے دکھ سکھ اور پریشانیاں شیئر کرتا تھا اور وہ خاموشی اور ضبط کے ساتھ ہر بات سن کر اس کو مشورے دیا کرتی تھی جن سے اکمل کے مایوس ذہن کو سہارا ملتا تھا۔ وہ لنچ ٹائم میں اس کے آفس آکر کچھ دیر کو باتیں کرتا، تو یہ چند لمحے اس کی زندگی کی متاع بن جاتے تھے۔ وہ اس کے چلے جانے کے بعد کئی دنوں تک اپنے کمرے میں اس کی خوشبو محسوس کرتی اور پھر سے اس کے آنے کا انتظار کرنے لگتی تھی۔ ادهر اکمل کے کانوں نے اشرفیوں کی کھنک سنی تھی۔ وہ بھلا زبیدہ کے دل میں چھڑی محبت کی راگنی کو کیونکر سن سکتا تھا۔ یہ الوہی نغمات سونے کے سکوں کی جھنکار میں ہمیشہ دب جایا کرتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ تھا کہ ایک طرف عشق کی تپش تھی اور دوسری طرف لاپروائی اور غرور کا سمندر تھا۔ ان دنوں بہت اچھی ملازمت پر ہونے کی وجہ سے زبیده کی شخصیت میں ایک نکھار اور دلکشی پیدا ہوگئی تھی۔ اپنے والدین کے اصرار کے باوجود غربت دور کرنے کی وجہ سے وہ صائب الرائے ہو گئی اور اس نے شادی سے انکار کردیا بلکہ چھوٹی بہنوں کی شادیاں کرا دیں۔ اس کے رشتے اب بھی آتے تھے لیکن وہ ماں کے اصرار پر بھی کان نہیں دھرتی تھی۔ بالاخر ماں باپ اس کی ضد سے مایوس ہو بیٹھے۔ ان کو کیا خبر کہ دل کے کسی چور خانے میں ان کی بیٹی اپنے من پسند محبوب کی تصویر سجائے بیٹھی ہے۔ وہ جو اس کی ہر سانس میں بسا ہوا ہے۔ زبیدہ نے اس کی شبیہ کو گویا سات تالوں میں بند کر کے رکھا ہوا تھا اور خود اس کی تپش میں بھسم ہو رہی تھی۔ خدا کی پناه یک طرفہ محبت کے سوز و اضطراب سے رات کی تنہائی میں وہ خاموشی سے اس طرح آنسو بہاتی جیسے مندر میں پتھر کے خدا کے آگے داسیاں آنکھیں بند کرکے آنسوئوں کی پالائیں بناتی ہیں۔ وہ کسی صورت اكمل کو نہ کھونا چاہتی تھی۔ جانتی تھی اگر اس کو شک بھی ہوگیا کہ وہ اس سے عشق کرتی ہے تو اس کی نظروں سے گر جائے گی، عام لڑکیوں کے جیسی اس کو نظر آنے لگی گی۔ وہ اس کو کھودے گی تو پھر اس کی صورت کو ترس جائے گی اور یہ صدمہ اس کی برداشت سے باہر تھا۔ اپنی شادی کے سال بعد تک وہ قدرے مصروف رہا۔ پھر بھی کبھی کبھار ملنے أجاتا تھا۔ اس نے چترال کی خوبصورت وادی میں اپنے ہنی مون کی تصاویر بھی اس کو لاکر دکھائی تھیں۔ جنہیں دیکھ کر اس کو اندازہ ہوا کہ اس کی بیوی اس کی طرح کسی دولت مند گھرانے کی لڑکی ہے۔ اس لڑکی میں، اس کو صرف یہ خوبصورتی نظر آئی کہ وہ بہت گوری ہے۔ گورے رنگ نے معمولی نقش چھپالئے تھے۔ جبکہ اکمل کا خیال تھا کہ وہ بہت خوبصورت ہے کہ اس کے گورے رنگ کا تو جواب نہیں۔ ابھی شادی کو بمشکل سال گزرا تھا کہ اکمل کو اپنی بیوی سے شکایات شروع ہوگئیں۔ یہ کہ وہ ہر معاملے میں ٹانگ اڑاتی ہے۔ وہ کسی معمولی گھر کی بیٹی نہ تھی۔ کیونکر اکمل کی اس بات کو برداشت کرتی کہ اس کا شوہر اس کی موجودگی میں دوسری خواتین میں دلچسپی لیتا تھا۔ زبیده تو اس کے مزاج کی لاپروائی اور عورتوں میں راجہ اندر بننے کی عادتوں کو جانتی تھی۔ اس نے دبے لفظوں کمال کو احساس دلایا کہ وہ ہر وقت لڑکیوں میں گھرا رہنے کی بجائے اپنی شریک حیات کو توجہ دیا کرے مگر اس نے یہ بات سنی ان سنی کر دی۔ بالآخر بات بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی کہ معاملہ طلاق پر ختم ہوا۔ طلاق کے کاغذات پر دستخط کرکے وہ سیدها زبیده کے پاس آگیا اور کافی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے یہ اطلاع دی۔ یہ بھی بتایا کہ اب وہ مزید تعلیم کے لئے امریکہ جا رہا ہے۔ بیوی کو طلاق دینے کا سن کر نجانے کیوں زبیده کو اپنے وجود میں گھنٹیاں سی بجتی سنائی دیں مگر اس نے چہرے سے دلی کیفیت کو آشکارا نہ ہونے دیا۔ وہ خود اپنی اس سرخوشی کی کیفیت پر حیران تھی تاہم اس میں اپنے جذبات چھپانے کی بڑی صلاحیت تھی تبھی کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہ کیا۔ پھر کافی دنوں تک اکمل کا کوئی پتا نہ چلا۔ زبیدہ نے اس کو فون نہ کیا۔ جانتی تھی وه ان مردوں میں سے ہے کہ جنہیں زیادہ توجہ دو تو وہ بیزار ہونے لگتے ہیں۔ کافی دنوں بعد وہ اس کے پاس آیا اور میز پر اپنا پاسپورٹ بمعہ ٹکٹ رکھ دیا اور کہنے لگا میں امریکہ جارہا ہوں مگر تم کو فون کرتا رہوں گا۔ تم کو بہت مس کروں گا کہ واقعی تم ایک اچھی دوست ہو اور اپنے دل میں طمع نہیں رکھتیں۔ بے لوث ہو تبھی ہر برے وقت تمہارے پاس آکر ہی مجھ کو سکون ملا ہے۔ جہاں رہو خوش رہو۔ زبیدہ نے ایک ٹوٹی ہوئی امید کے ساتھ کہا۔ اس کو اپنا فقره کهوکهلا لگا جسے اس کے اندر انتقام کا شعلہ جل اٹها ہو. زبيده جو ہمیشہ خود پر قابو رکھتی تھی۔ اب بھی سرد پتھر ایسی بیٹھی تھی۔ اس خاموش مورتی کو وہ بے نیازی سے خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔ اس کے جانے کے کافی دیر بعد تک اس کو ہوش نہ آیا۔ دفتر سے خرابی طبیعت کا بہانہ کرکے گھر آئی تو شدید سردرد کی وجہ سے کمرے میں خود کو بند کر لیا اور دیر تک روتی رہی۔ اس کے جانے کے بعد سارا شہر سنسان لگ رہا تھا۔ اس کے دل کے صحرا میں گرم ریت کے بگولے اٹھ رہے تھے۔ اس نے خود کو کام میں گم کر دیا۔ آفس میں ہر کوئی اس کی کام میں لگن دلجمعی اور انتھک محنت کا معترف ہوا۔ آفس کی ہر میٹنگ میں اس کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ دن بھر کام میں اکمل کی یاد کو دفن رکھتی اور رات کو یادوں کے مردے جگا کر ان سے باتیں کرنے لگتی۔ یونیورسٹی کے زمانے میں کھینچا گیا گروپ فوٹو نکال کر دیکھا کرتی، جس میں اس کی محبت کی کونپل مژگاں کهولتی دکھائی دیتی تھی۔ اکمل کے جانے کے دو سال بعد اس کا فون آیا، وہ یہاں خوش ہے۔ امریکن لڑکیاں مردوں کے گلے کا ہار نہیں بنتیں، وہ بڑی جلدی جان چھوڑ کر چلی جاتی تھیں اور اس کو یہ بات بڑی پسند آتی ہے۔ زبیده نے خاموشی سے فون سنا۔ وہ جانتی تھی کہ اكمل ہر قسم کی ذمہ داری نبھانے سے گھبراتا تھا۔ چند دنوں بعد ہی اس کا دوباره فون آیا کہ اس نے اپنی گرل فرینڈ مارتھا سے شادی کرلی ہے اور بہت خوش ہے مگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی کیونکہ چھ ماہ بعد اس نے فون کر کے بتایا کہ مارتها غصے کی تیز تھی، گھر کا کوئی کام نہ کرتی۔ گهر کی صفائی، کپڑے دھونا، استری کرنا، برتن دھونا، اکمل کی ذمے داری تھی۔ وہ یہ سب کرنے کا عادی نہ تھا، اس لئے دونوں میں جھگڑا رہنے لگا۔ پھر اس نے عدالت میں مقدمہ دائر کردیا کہ اكمل اس کو خوفزدہ کرتا ہے اور قتل کیا دھمکیاں دیتا ہے۔ فیصلہ مارتھا کے حق میں ہوا اور اکمل کا بہت سا پیسہ اور دونوں گاڑیاں عدالت کے فیصلے کے مطابق مارتھا کو مل گئیں اور وہ ایک طرح سے سڑک پر آگیا ہے۔ کافی عرصہ زبیدہ کو اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہ ملی۔ پھر ایک دن اس کا فون آیا۔ اس نے اتنے لمبے عرصے تک فون نہ کرسکنے پر معذرت کرکے کہا کہ وہ اس سے باتیں کرکے اپنا بوجھ دل ہلکا کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ وہ اس کو اپنے بہت قریب محسوس کرتا ہے۔ یہ سن کر زبیده کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اب گاہے گاہے وہ اس کو فون کرلیتا تھا اور اپنی خیریت بتا دیا کرتا تھا۔ عام مردوں کی طرح اس کا بھی یہ مسئلہ تھا کہ وہ بالکل اکیلا نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کو ویسے بھی عورتوں میں گھرا رہنے کی عادت تھی۔ امریکہ میں بھی اس نے دوستیاں لگالیں۔ اس نئے شہر میں بھی اکمل نے ایک لڑکی سے دوستی کرلی اور دو تین سال اس کے ساتھ رہا۔ اس عرصے میں وہ لڑکی پیسہ اپنے کنٹرول میں رکھتی۔ اکمل پاکستان کے ماحول میں پلا بڑها تها۔ اپنی لاپروا فطرت کی وجہ سے اس نے بینک بیلنس کبھی چیک نہ کیا تھا۔ پھر اچانک بغیر کسی وجہ کے یہ بیوی بھی اس کا گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ اکمل نے دوسرے دن بینک سے بیلنس معلوم کیا تو سارا پیسہ وہ نکلوا چکی تھی۔ اب اس نے عدالت کے ذریعے گھر کی دوسری چیزوں کے بارے میں مقدمہ دائر کردیا۔ امریکی قانون میں یہ شق ہے کہ اگر بغیر نکاح کے بھی مرد اور عورت ساتھ رہتے ہیں تو وہ میاں بیوی مانے جاتے ہیں اور ان کو علیحده ہونے پر ہر چیز آدھی آدھی دی جاتی ہے۔ بینک میں پیسہ نہ تها مگر فلیٹ کی ہر چیز اور گاڑی عدالت کے فیصلے کے مطابق لڑکی کو مل گئی اور اکمل دوباره روڈ پر آگیا۔ زبیدہ نے خاموشی سے اس کا دکھڑا سنا اور کوئی جواب نہ دیا۔ اکمل پهر غائب ہوگیا۔ زبیدہ کو اندازہ ہوگیا کہ وہ پھر شروع سے اپنی زندگی کو صحیح لائن پر لانے کی تگ و دو میں ہے۔ اس دوران وہ بھی ترقی کرکے اور اچھے عہدے پر فائز ہوچکی تھی۔ آفس کی طرف سے اس کو گاڑی اور مکان کا کرایہ ملنے لگا۔ بهائی بھی ترقی کرکے اچھے عہدوں پر کام کررہے تھے۔ گهر کی غربت دور ہوگئی تھی۔ زبیده کی بہنیں اپنے گھروں میں شاد و آباد تھیں۔ اب ماں باپ کو صرف اس کی فکر تھی مگر وہ خود میں گم تھی۔ جب بھی اکمل کو بهول جانے کی کوشش کرتی، وه اور شدت سے یاد آنے لگتا اور پھر اس کا فون بھی امریکہ سے آجاتا۔ وہ اپنا وہی رونا دہرانے لگتا کہ اگر اس دنیا میں اس کا کوئی مخلص دوست ہے تو وہ صرف زبیده ہے۔ اب پھر وہ کسی اور لڑکی کا انتخاب کرچکا تھا اور اس کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اس بار اکمل نے کہا۔ یہ لڑکی واقعی اس کا خواب ہے۔ بہت معصوم، کم گو اور شریف ہے۔ اس کا بہت خیال رکھتی ہے اور وہ بہت خوش ہے۔ وہ زبیدہ کو فون کرکے جینا کی تعریف کرتا اور کہتا کہ بس اس کا صرف ایک ہی مسئلہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ کھانا نہیں کھاتی۔ زبيده بالکل نہیں چاہتی تھی کہ وہ ہر وقت دوسری عورتوں کے رونے اس کو سنائے۔ مگر منع بھی نہ کرتی کہ یہی واحد ذریعہ تھا کہ وہ خاموشی سے اس کے دکھ سکھ سنتی تو ہی وہ فون کرتا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اگر اس کا فون بند کردیتی تو ایسی جان لیوا اذیت سے گزرتی کہ سہہ نہ پاتی۔یہ عجب طرح کا تعلق تھا جو اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اس جذبے میں شدت ضرور تھی مگر اب اس میں بے کیفی اداسی اور دکھ بھی شدید ہوتا جارہا تھا۔ ایک دن پهر اکمل کا فون آیا۔ ٹوٹی ہوئی آواز میں بتایا کہ وہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے گھر آیا تو جینا کو ایک دوسرے شخص کے ساتھ پایا۔ میز پر کھانے کے برتن پڑے تھے۔ اس نے اندازه لگا لیا کہ وہ اس کے ساتھ روز کھانا کیوں نہیں کھاتی تھی۔ اس نے جینا سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے اور تم نے اس کا مجھ سے تعارف کیوں نہیں کرایا۔ نیز یہ کہ کیا یہ شخص اس کی غیر موجودگی میں اکثر یہاں آیا کرتا ہے؟ اس پر دونوں نے ڈھٹائی سے کہا کہ یہ دو دوستوں کا پرسنل معاملہ ہے، اگر اس نے کوئی بدتمیزی کی تو وہ پولیس کو اس کے خلاف شکایت درج کروادیں گے۔ جينا نے کہا کہ میں پولیس کو یہ شکایت درج کرادوں گی کہ تم سے مجھے تشدد کا خوف ہے، اس لیے میں نے مدد کے لیے اپنے دوست کو بلایا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اکمل سے نہ صرف گاڑی کی چابی لے لی بلکہ گاڑی کے کاغذات پر دستخط بھی کروائے کیونکہ جو مرد جینا کے ساتھ تھا وہ بدمعاش قسم کا تھا۔ جینا اس کے ساتھ گهر سے چلی گئی ہے۔ زبیدہ نے پہلی بار پوچها کہ اکمل تم ہمیشہ غلط عورت کا انتخاب کیوں کرتے ہو؟ اكمل اس کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ کچھ دنوں بعد زبیده کی ملاقات آفس کی ایک پارٹی میں یونیورسٹی کے ایک اور کلاس فیلو متین سے ہوئی۔ وہ زبیده سے مل کر خوش ہوا۔ اپنے بارے میں اس نے بتایا کہ اس کی بیوی کا انتقال ہوگیا ہے۔ بیٹا ملازمت کے سلسلے میں ایران چلا گیا جہاں اس نے شادی کرلی اور وہاں کا ہورہا ہے۔ وه تنها زندگی گزار رہا ہے۔ اس ملاقات کے بعد وہ دو چار بار آفس آیا اور پھر شادی کی آفر کردی۔ پہلی بار سوچا کہ متین کی طرح وہ بھی کتنی تنہا ہے۔ اس کے بہن بھائی اپنی زندگی اور خوشیوں میں مگن تھے اور وہ جس کو ایک طویل عرصہ تک اپنے دل کے نہاں خانوں میں چھپائے رکھا، امریکہ میں شادیوں پر شادیاں کرکے صرف اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کو اسے کبھی کبھار فون کردیتا ہے۔ کبھی اس نے اس کا حال دریافت کرنے کی زحمت نہیں کی۔ میں نے آنکھیں بند کرکے اسے چاہا، چاہتی رہی اور اس کے دل کے دروازے میرے لئے کبھی نہ کھلے جبکہ متین کا دل میرے لیے دھڑکتا کہ جس کو میں نے کبھی درخور اعتنا نہ جانا تھا۔ یہ میں نے نادانی میں بس اپنی زندگی کے ساتھ کھلواڑ ہی تو کیا ہے۔ کاش میں بہت پہلے اپنے جذبات کے سمندر سے نکل کر دنیا کو حقیقت کی آنکھ سے دیھکتی تو اتنی تنہا اور ویران زندگی نہ ہوتی۔ بالآخر متین کے بار بار سمجهانے پر اس نے شادی کی پیشکش قبول کرلی۔ شادی کے چند روز بعد وہ آفس آئی اور رکھے ہوئے کام کو نمٹانے لگی۔ تبھی اچانک اکمل آگیا۔ پندرہ سال بعد وہ ان کو دیکھنے لگی۔ حیرت سے آج وہ ایک لاابالی کھلنڈرا اکمل نہیں بلکہ ایک ٹوٹا ہوا شکست خورده آدمی نظر آرہا تھا۔ میں اب بغیر منزل والے سفروں سے تھک گیا ہوں، ذہنی سکون کو تمہارے پاس آیا ہوں۔ زبیدہ نے اس کی طرف اداسی سے دیکھا مگر کوئی جواب نہ دیا۔ تم سے مدد مانگنے آیا ہوں۔ زبیده جواب دو۔ کیا تم مجھ سے شادی کروگی؟ اکمل نے کہا۔ مجھ سے شادی کرلو۔ مجھے یونیورسٹی کی راہداری میں تمہارے کہے ہوئے وہ الفاظ یاد ہیں اکمل جب تم نے کہا تھا کہ دو دفعہ صابن سے منہ دهوکر اپنی اوقات پر غور کرو۔ اور تم سے شادی کی اس پیشکش کے انتظار میں دیکھو پھر بھی میں نے برسوں گزار دیئے۔ تم چند دن پہلے کیوں نہ آگئے۔ اب تو میرا نکاح طے ہوگیا ہے۔ تم یہ فیصلہ بدل بھی سکتی ہو، ابھی وقت بے زبیده. نہیں میں تمہاری طرح کے بندھن نہیں جوڑتی۔ میری بہاروں کے دن گزر گئے جو تمہارے ساتھ گزارنے تھے۔ یہ فقرہ اس کے لبوں پر آتے آتے رہ گیا۔ وه بهاری قدموں سے چلاگیا اور زبیده اس کو ہارے ہوئے شخص کی طرح جاتے دیکھتی رہ گئی۔ شاید اس لیے وہ ہار کر بھی جیت گئی تھی
0 Comments