ان دنوں مجھے ایک کام والی کی اشد ضرورت تھی۔ اوپر تلے کے تین چھوٹے چھوٹے بچے اور اب چوتھے کی آمد تھی۔ ایسے میں پرانی ملازمہ اپنے گائوں چلی گئی تو بچوں نے مجھے چکرا کر رکھ دیا۔ اس روز میں نے صبح صبح ہی نماز پڑھ کر دعا کی تھی یا اللہ کوئی مددگار بھیج دے۔ کوئی ایسی ضرورت مند خاتون جس کے پاس بے شک رہنے کا بھی ٹھکانہ نہ ہو. صاحب ناشتہ کے بعد آفس چلے گئے تھے کہ در پر دستک ہوئی۔ کھولا تو سامنے ایک خوش شکل نوجوان مگر خستہ حال عورت کھڑی تھی۔ خوبصورت چہره مرجھایا ہوا تھا اور اس پر ناامیدی کی مٹی مٹی داستاں خشک آنسوئوں سے لکھی نظر آرہی تھی۔ ساتھ ایک چار سالہ بچہ بھی تھا۔ یہ حال زار دیکھ کر میں سہم گئی۔ کیا بات ہے؟ ضرورت مند ہو؟ جی مجھے کام چاہئے۔ میں نے اسے اندر آنے دیا۔ کیا کام کروگی؟ سارا کام جو آپ کہیں گی۔ کیا تنخواه لو گی؟ میں نے برآمدے میں پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ جو آپ دے دیں گی۔ کہاں رہتی ہو؟ کوئی گھر نہیں ہے۔ چند دن جیلر صاحب کی بہن کے گھر رہی ہوں۔ جیلر صاحب کی بہن کے گھر؟ کیا مطلب؟ جی میں جیل میں تھی۔ قیدی عورتوں کے وارڈ میں۔ میں سمجھی وہاں صفائی پر مامور ہوگی یا کسی اور کام کے لئے وارڈن کی معاونت کرتی ہوگی۔ جیلر صاحب نے ترس کھا کر اپنی بہن کے گھر بھیج دیا تھا رہائی کے بعد... ان کی بہن آب جارہی ہیں باہر، اسی لئے کام اور ٹھکانہ ڈھونڈ رہی ہوں۔ میں لاوارث ہوں۔ میرا کوئی بھی اس دنیا میں نہیں ہے۔ ياالله... دعا تو کی تھی، اس وقت جذبات میں آکر اور تو نے جوں کی توں میری دعا کو سن بھی لیا۔ اچھا ٹھیک ہے۔ ہاتھ منہ دهو لو کچن میں جاکر ناشتہ بنادو۔ میں ٹی وی لائونج میں آکر لیٹ گئی اور وہ کچن میں چلی گئی جبکہ اپنے بچے کو اس نے ٹی وی کے سامنے بٹھا دیا۔ کارٹون لگے ہوئے تھے اور میرے بچے بھی بہت انہماک سے دیکھ رہے تھے۔ ناشتہ بنانے میں اس نے دیر نہیں کی۔ بڑے قرینے سے ٹرے میں انڈے فرائی، توس، مکھن، چائے سب رکھ کر لے آئی۔ میز پر ٹرے رکھ دی تو میں نے کہا کہ مجھے پلیٹ میں ایک فرائی انڈا اور توس دے دو۔ دوسری پلیٹوں میں بچوں کے لئے نکالو اور ان کے سامنے میز پر دهر دو. اس نے بہت سلیقے سے یہ سب کیا، لگتا تھا کہ وہ سب کام جانتی ہے اور اپنے کام میں ماہر ہے۔ نام کیا ہے تمہارا؟رحمت... اچها رحمت بی بی اب تم اپنے اور اپنے بچے کے لئے ناشتہ بنائو۔ خود بھی کھائو اور اس کو بھی کھلا دو۔ تبھی وہ ’’جی‘‘ کہہ کر کچن کی طرف چلی گئی اور میں سوچ میں پڑ گئی۔ اس کا کیا کروں۔ کیا جواب دوں اسے اپنے شوہر سے مشورہ کروں، وه تو منع کردیں گے۔ جیل میں تھی تو کیا جرم کیا تھا اس نے۔ یہ سب سوال بڑے چبهتے ہوئے سے تھے۔ ایسی مشکوک عورت کو اپنے پاس رکھنا جس کا کوئی ٹھکانہ بھی نہ تھا، بڑے رسک کی بات تھی۔ انہی سوچوں میں تھی کہ وہ ناشتے سے فارغ ہوکر آگئی۔ جی۔ بی بی برتن دھو لوں؟ میں نے لمحے بھر کو سوچا۔ ٹھیک ہے دھو لو۔ ڈھیر سارے برتن سنک میں پڑے میری نظروں کے سامنے گھوم گئے۔ اس نے اتنے سارے برتن منٹوں میں دھو دئیے اور ان کو سلیقے سے جہاں رکهنا تها ركھ بھی دیا۔ میں کچن میں آئی تو وہ چولہا صاف کررہی تھی۔ اس کی مستعدی سے خوف زدہ ہوگئی تھی، تاہم دل کو ڈھارس دی۔ اشرف وکیل ہیں تو پھر مجھے کس بات کا خوف ہے۔ ان سے پوچھ کر ہی اس کو رکھوں گی۔ دل کو تسلی دینے لگی۔ چولہا صاف کرلیا تو وہ میرے پاس آگئی۔ رحمت مجھ کو اپنے بارے سچ سچ بتانا تم کون ہو اور کیا تمہاری بپتا ہے۔ تبھی تم کو رکھوں گی اور دیکھو میرے میاں وکیل ہیں۔ کورٹ کچہری سے روز ان کا واسطہ رہتا ہے۔ وہ تمہارے بارے میں بھی معلوم کرلیں گے۔ لہذا
جھوٹ سے کام نہیں لینا اور اپنے متعلق سب کچھ سچ سچ ہی بتانا۔ بی بی... خاطر سے رہو۔ جھوٹ سے میرا کیا لینا دینا ہے۔ میں نوکری لینے نکلی ہوں، گائوں کی ایک سیدھی سادی عورت ہوں۔ کون سے گائوں کی ہو۔ حميد والا کی۔ ارے وہ تو ہمارا سسرالی گائوں ہے۔ میری سابقہ ملازمہ بھی وہاں کی ہے، تب تو تمہارے بارے میں ہر معاملہ خوب معلوم ہوجائے گا۔ اب بتائو کس جرم میں تم کو جیل جانا پڑا؟ کوئی جرم نہ تھا۔ یہاں کوئی جرم نہ بھی ہو تو جیل جانا پڑ سکتا ہے۔ آپ تو وکیل کی بیوی ہیں، آپ خوب یہ بات جانتی ہوں گیوه پائوں پسار کر بیٹھ گئی اور سکون کے ساتھ گویا ہوگئی۔ گیارہ برس کی عمر میں میری شادی ابا نے دور کے رشتہ داروں میں کردی اور بدلے میں ان کی بیٹی کو اپنے بیٹے نعیم سے بیاہ کر لے آئے۔ گیاره برس کی بچی بهلا اپنا گھر چھوڑ کر کس طرح دوسرے گھر میں خوش رہ سکتی ہے۔ یہاں مجھ سے اتنا کام لیا جاتا تھا کہ کام کرتے کرتے بے ہوش ہوجاتی تھی۔ ساس ایسا اس لئے کرتی کہ میرے باپ کے گھر اس کی بیٹی سے بھی اسی طرح کام لیا جاتا تھا، جیسے خرکاروں کے کیمپوں میں اغوا شدہ بچوں سے لیا جاتا ہے۔ ان حالات سے گھبرا کر میں گھر سے بھاگتی تو پڑوس میں ساس کی بہن ماسی رحمہ کے گھر جا چھپتی۔ ماسی رحمہ ایک رحم دل عورت تھی۔ وہ میری ساس کو سمجھاتی۔ یہ بچی ہے۔ اس سے اتنا کام نہ لیا کرو۔ تب وہ جواب دیتی میری بیٹی بھی تو ان کے گهر سکھی نہیں ہے۔ اس کی بیٹی بے شک کام کاج سے تنگ ہو۔ مگر اپنے شوہر سے ہرگز تنگ نہ تھی، کیونکہ میرے بھائی سے اس کی محبت کی شادی تھی اور اپنی محبت کو حاصل کرنے کے لئے ہی بھائی نے مجھ کو قربانی کا بکرا بنا دیا تھا۔ نعیم بھائی بیس سال کا اور بهابهی سترہ اٹھارہ کے سن میں تھی۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی چاہت تھی مگر مجھے شوہر کی ضرورت نہ تھی۔ میں تو شوہر کے رشتے کو ہی نہیں سمجھتی تھی اور ظفر کو دیکھ کر ہراساں ہوجاتی تھی۔ تبھی اس تشدد بھری زندگی سے نفرت کرنے لگی۔ یہ ایسے لوگ تھے جہاں عورت کو جانور سمجھا جاتا تھا۔ دن رات کے اس جبر نے میری حالت قابل رحم کردی۔ جب میں شادی شدہ ہونے کو قبول نہ کرسکی تو شوہر سمیت گھر کے سبھی افراد نے مجھ کو مار سے سدھارنے کا بیڑه اٹھالیا۔ اپنے سے بیس برس بڑے اس شخص سے جس کو سب میرا گهر والا کہتے تھے مجھ کو ڈر لگتا تھا۔ وہ میرا ہم عمر ساتھی نہ تھا۔ میری ذہنی حالت کو نہیں سمجھتا تھا۔ وہ جب مجھے بلاتا بهاگ کر ساس کے پیچھے چھپ جاتی۔ تب وہ مجھ کو پرے دھکیل کر کہتی۔ دور ہوجا مجھ سے... اتنی بڑی ہوگئی ہے اب بچی تو نہیں ہے کہ مجھ سے لپٹتی ہے۔ ہٹ پرے ہو۔ تین سال میں نے سسرال میں بمشکل گزارے تھے کہ مجھ سے مایوس ہوکر ظفر نے گائوں کی طلاق یافتہ عورت سے مراسم بڑهالئے اور دوستانہ رشتہ استوار کرلیا۔ اس عورت کا نام گوہر تھا۔ جونہی وہ ظفر کی زندگی میں آئی، وہ گلاب کی مانند کهل اٹھا۔ اس نے عورت کے ورثا سے بات کی۔ انہوں نے ایک لاکھ روپے کی شرط پر گوبر کا رشتہ دینا قبول کیا۔ یہ روپیہ ظفر مجھ کو طلاق دے کر ہی حاصل کرسکتا تھا اور جو شخص میرے عوض اس کو ایک لاکھ دیتا، وہ مجھ کو اس کے نکاح میں دے دیتا۔ اس نے سوچا اگر کوئی ڈیڑھ لاکھ دینے والا مل جائے تو بات بن جائے گی، اس طرح وہ پچاس ہزار روپے میرے ورثا کو دے کر ان کا غصہ ٹھنڈا کر پائے گا بشرطیکہ وہ اس سودے پر راضی ہوگئے۔ تب تو اس کی بہن کا گھر بھی آباد رہے گا اور اس کے من کی مراد بھی پوری ہوجائے گی۔ ظفر نے تلاش شروع کردی۔ ساتھ والے گائوں کا ایک آدمی انہی دنوں دبئی سے آیا تھا۔ وہ مسلسل چار سال وہاں محنت مزدوری کرتا رہا تھا اور کافی رقم جمع کرکے اب وطن کو لوٹا تھا۔ اس آدمی کی کوئی بہن نہ تھی۔ ماں بھی مرچکی تھی، اس کو اپنے لئے رشتے کی حاجت تھی۔ اس نے ایک دوست سے مدد چاہی۔ وہ دوست ظفر کا واقف کار تھا، اس نے ظفر کو صلاح دی۔ تم اپنی بیوی سے خلاصی چاہتے ہو تو یہ سودا مستری مسعود سے کرلو۔ نیا نیا دبئی سے آیا ہے، وہ تم کو ڈیڑھ لاکھ دے دے گا۔ ادھر جب ظفر نے نعیم سے میری طلاق کی بات کی تو میرے والدین نے شور و غوغا کیا۔ نعیم ہرگز اپنی بیوی کو نہ چھوڑنا چاہتا تھا۔ ان کے دو بچے جنم لے چکے تھے۔ اس نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ میری طلاق کا خود بھائی گواہ بن گیا۔ طلاق کے بعد میرا مستری سے نکاح ہو گیا۔ ادھر بھائی نے مجھ کو خود مسعود مستری کے حوالے کر کے پچاس ہزار جیب میں رکھ لئے۔ ظفر نے بقیہ لاکھ روپیہ گوہر کے ورثا کو پکڑا کر اس سے نکاح کرلیا۔ میرا بوڑھا باپ اپنے ہی جوان بیٹے کے ہاتھوں بے بس روتا پیٹتا رہ گیا۔ دراصل ظفر نے مجھے طلاق دینے سے پہلے میرے ماں باپ کو جاکر یہ کہا تھا کہ تمہاری لڑکی میرے پاس بسنے کو تیار نہیں ہے۔ میرے بھائی نے ابا کو کہا۔ قصور تمہاری لڑکی کا ہے، ظفر کا نہیں۔ وہ تو بسانا چاہتا ہے، یہ ہی نہیں بستی۔ اس کو اپنا شوہر نہیں مانتی تو وہ اس بے کار رشتے کا کیا کرے۔ اس ضدی لڑکی کی یہی سزا ہے کہ اس کو کسی دوسرے
گائوں بیاه دو۔ اور ہم میاں بیوی کو خوشی سے آباد رہنے دو۔ اب یہ ہوا کہ صبح ظفر نے مجھے طلاق دی اور شام کو بھائی نے خریدنے والے سے میرا نکاح پڑھوا دیا۔ جو مجھ کو لے کر اپنے گھر آگیا۔ روپوں کی خاطر ان لوگوں نے مجھ کو عدت بھی پوری نہ کرنے دی۔ جب وہ مجھ کو گائوں لایا۔ اس کے چند دوستوں کو علم ہوگیا کہ جس روز طلاق ہوئی، نکاح بھی اسی دن ہوا تھا۔ انہوں نے مستری پر اعتراض اٹھایا کہ بغیر عدت پوری کئے نکاح کیا تو، یہ نکاح نہیں ہوا ہے۔ مستری نے مجھے خریدا تھا، ڈیڑھ لاکھ بھرا تھا، وہ چپ سادھ گیا۔ مجھ کو اس کے گھر رہتے ایک ماہ ہوا تھا کہ میری والدہ اپنی بڑی بہن کے پاس شہر گئیں اور خالہ کو تمام احوال بتایا۔ خالو بھی مذہب اور دین کی واقفيت رکھتے تھے وہ فکرمند ہوگئے اور ایک وکیل کو مسئلہ بتایا۔ جن سے ان کی اچھی جان پہچان تھی۔ وکیل نے کہا کہ طلاق کا کاغذ اور نکاح نامہ ہے تو میرے پاس لے آئو۔ ماں میرے پاس آگئی۔ میں بھی اس نئے آدمی کے گھر نہ رہنا چاہتی تھی۔ ماں نے کاغذات کا پوچھا۔ میں نے کہا کہ الماری میں ہیں۔ جب مستری گھر میں نہ تھا ہم ماں اور بیٹی نے الماری کھولی اور کاغذات جو لفافے میں رکھے تھے اٹھا لئے۔ ماں وہ ساتھ لے گئی اور جاکر خالو کو دئیے۔ جب مستری کو علم ہوا کہ کاغذات غائب ہیں اس نے مجھ سے کہا کہ اب تم اس معاملہ کا یہاں گائوں میں ہرگز واويلا نہ کرنا۔ تم کو ماں کے پاس لئے چلتا ہوں، کسی طرح وہ کاغذات اس سے حاصل کرو تو میں ان سے کوئی جهگڑا نہ کروں گا اور نہ تم پر کوئی سختی کروں گا۔ ہم صلح صفائی سے معاملے کو طے کرلیں گے۔ مستری کو ڈر تھا بات عدالت تک نہ پہنچ جائے۔ پتا چلا کہ ماں تو شہر میں ہے، وہ مجھے شہر خالہ کے گھر لے آیا۔ ماں نے کہا کہ ہم صلح کرلیں گے اور کوئی کارروائی نہ کریں گے تم پریشان مت ہو۔ مستری ماں کی بات کا یقین کرنے کے علاوہ اور کیا کرتا۔ وہ مجھے خالہ کے گھر چھوڑ کر میرے بھائی نعیم کو اس معاملے کی خبر دینے چلا گیا۔ جس نے میرے عوض پچاس ہزار کی رقم بھی کھری کرلی تھی اور اپنا گھر بھی برباد ہونے سے بچالیا تھا۔ مستری نے شام کو مجھے لینے کو آنا تھا۔ اس کے جاتے ہی خالو وکیل کے پاس لے گیا، جس نے عدالت میں میرے بیان کروا دئیے۔ نعیم کو مستری نے ساری بات بتادی۔ اس نے کہا تم فکر نہ کرو، میں تم پر کیس نہ ہونے دوں گا اور ہم تمہاری بیوی کو تمہارے ہی حوالے کریں گے۔ بھائی میرے پاس آیا۔ مجھے سمجھایا بجھایا، مگر خالو نے مداخلت کی کہ یہ نکاح درست نہیں ہے، تم یہ ظلم نہ کرو۔ جب بھائی نے دیکھا کہ خالو میری طرف ہے، وہ میرے اور خالو کے خلاف ہو گیا اور مستری کے ساتھ مل کر خالو پر اغوا کا پرچہ کروا دیا۔ میں نے اس بچے کو بھی جیل میں جنم دیا اور یہ میرے ساتھ وہاں رہا۔ جیل میں زیادہ عرصہ اس وجہ سے رہنا پڑا تھا کہ نہ وہاں میرا کوئی وارث تھا اور نہ کوئی وکیل پیروی کرنے والا۔ خالو تو بے چارے خود جیل میں تھے اور کون پیروی کرتا۔ سال بعد خالو کو تو رہائی مل گئی مگر مجھے کچھ عرصہ اور بھی قید میں رہنا پڑا۔ جب رہائی ملی، مستری اور نعیم بھائی کی دشمنی کے خوف سے خالہ نے مجھے اپنے گھر رکھنے سے انکار کردیا۔ جیلر صاحب نیک آدمی تھے۔ میں نے ان سے رابطہ رکھا۔ وہ میرا تمام احوال بھی جان چکے تھے۔ انہوں نے اپنی بہن کے گھر میرے رہنے کا بندوبست کردیا۔ میں ان کا کام کرتی اور وہ مجھ دکھیاری کا دھیان رکھتی تھی۔ اب ان کے بیٹے نے ان کو امریکہ بلوالیا ہے تو مجھ کو اپنے اور اپنے اس معصوم بچے کا پیٹ پالنے کو کام کی تلاش تھی۔ اللہ نے آپ کے در پر پہنچا دیا ہے۔ آپ کے شوہر وکیل ہیں۔ اب اگر کسی نے میرا پیچھا کیا یا مجھ پر دوباره میری مرضی کے خلاف دبائو ڈالا تو وہ ضرور میری داد رسی کریں گے۔ ہم جیسوں کی داد رسی کرنا ان کے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ قانون جانتے ہیں۔ یہ بات رحمت نے کچھ اس طرح پراعتماد لہجے میں کہی کہ میں اس پر ترس کھائے بغیر نہ رہ سکی۔ شام کو اشرف آئے۔ میں نے رحمت کی روداد ان کو کہہ دی۔ انہوں نے کہا۔ میں اس کیس کے بارے میں جانتا ہوں۔ یہ کیس پہلے میرے پاس آیا تھا، بعد میں، میں نے یہ کیس اپنے ایک جونیئر وکیل کو دے دیا تھا کیونکہ مجھ پر کام کا بہت لوڈ تھا۔ اس لڑکی کے خالو کی ضمانت اور اس کے بیان بھی میرے دوست وکیل نے کروائے تھے۔ میں اس کو پہچان گیا ہوں۔ رسک کی کوئی بات نہیں۔ اگر کچھ معاملہ ہوا تو نمٹ لوں گا۔ تم رحمت کو رکھا لو۔ یہ واقعی بے گناہ ہے، جو کیا دھرا ہے اس کے لواحقین کا ہے۔ اپنے شوہر کے ڈھارس دینے پر میں نے رحمت کو اپنے پاس رکھ لیا۔ وہ واقعی مظلوم اور پناہ کی مستحق تھی۔ اس نے میرا بہت ساتھ دیا۔ میرا گھر اور بچے سنبهالتی رہی۔ میری ہر بات مانتی تھی مگر شادی کے نام سے بدکتی تھی۔ شادی اور شوہر کے نام سے ہی اس کو نفرت ہوگئی تھی۔ اس نے زندگی کا لمبا عرصہ اپنے بچے کی پرورش پر دھیان دے کر گزار دیا۔ آخرکار ایک روز میرے میاں کے سمجهانے سے وہ مان گئی اور ہم نے اس کی شادی اپنے ڈرائیور سے کرادی، جس کی بیوی رضائے الہی سے انتقال کرچکی تھی۔ وہ خان محمد اور اس کی پہلی بیوی کی دو بچیوں کے همراه خوش و خرم آباد ہوگئی تو ہم کو بھی اس کے فرض سے سبک دوشی کے بعد سکون مل گیا۔ یوں جیسے ہم نے کسی غیر کو نہیں اپنی ہی لڑکی کو اس کے گھر کا کردیا ہو
0 Comments