Search Bar

Latest Story Haal e Dil Kiss Say Kahoun | Teen Auratien Teen Kahaniyan | Meri Story

 



یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں چھوٹی سی تھی۔ ایک چھوٹے سے شہر میں رہا کرتی تھی۔ وہ شہر کب تھا، گائوں جیسا تھا جہاں پرائمری اسکول میں لڑکے اور لڑکیاں ساتھ پڑھتے تھے۔ ویسے تو لڑکیوں کے لئے علیحده اسکول تھا لیکن پڑهائی اچھی نہ ہونے کے باعث اکثر لڑکیاں ہمارے اسکول میں پڑھنے کو ترجیح دیتیں۔ کلاس میں اکثریت لڑکیوں کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہماری کلاس اسکول کی سب سے اچھی جماعت تھی کیونکہ لڑکیاں زیاده استادوں کی فرماں بردار ہوتی ہیں اور کھیل کود سے زیادہ پڑھائی میں دلچسپی رکھتیں جبکہ وہ کلاس جس میں لڑکے زیادہ ہوتے، تعلیمی لحاظ سے بہتر نہ ہوتی کیونکہ لڑکے شرارتیں کرتے، ڈسپلن توڑتے اور اپنے کپڑے بھی أجلے نہ رکھتے جبکہ لڑکیاں صفائی ستھرائی کا بھی خیال رکھتی تھیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہماری کلاس سارے اسکول کی سب سے ’’اچھی‘‘ کلاس تھی۔ یہ بات ہر استاد کے منہ تھی۔ ہماری کلاس کا مانیٹر لڑکا جس کا نام راج ویر تھا۔ وہ اعلی ذات کا تها، تبھی اس کی سب عزت کرتے تھے۔ اس کا باپ ایک تاجر تھا، اس کے رکھ رکھائو اور عادات سے خوشحالی ظاہر ہوتی تھی۔ راج ویر بہت ذہین اور خوبصورت تھا مگر چالاک نہیں تھا، سیدها ساده تها۔ تقریریں اچھی کرتا تھا۔ جب بھی کوئی فنکشن یا تقریری مقابلہ ہوتا، اول نمبر رہتا تھا۔ اس وجہ سے بھی ہیڈ ماسٹر صاحب سب استاد اور لڑکے لڑکیاں اس کو چاہتی تھیں۔ میں اپنی جماعت کی سب سے کمزور لڑکی تھی۔ اتنی خوبصورت بھی نہ تھی، مجھ سے کہیں زیادہ ذہین، چالاک، امیر اور خوبصورت ہمارے ساتھ پڑهتی تھیں، پھر بھی سمجھتی تھی کہ راج ور مجھ کو چاہے گا شاید یہ میری خود فریبی تھی یا خام خیالی... مگر اپنے اسی تصور میں بہت خوش تھی۔ بے شک وہ میری طرف دیکھتا بھی نہ تھا مگر وہ کسی اور کو بھی لفٹ نہ دیتا تھا حالانکہ ان دنوں ہم اتنے بڑے نہ تھے۔ فلموں اور ڈراموں کی وجہ سے ہم کو اتنا شعور ضرور تھا کہ لڑکے اور لڑکیاں آپس میں دوستی اور محبت کرتے ہیں۔ میرے گھر سے راج ویر کا مکان نزدیک تھا۔ ہم صبح آٹھ بجے اسکول جاتے اور دو بجے واپس آتے، تھوڑی دیر آرام کرتے، کھانا وغیرہ کھاتے اور پھر ٹیوشن کے لئے جاتے تو چھ بجے لوٹنا ہوتا تھا۔ یوں ہم گهر سے زیاده وقت اسکول میں ایک ساتھ رہتے تھے۔ انہی دنوں اسکالر شپ کی تاریخ کا اعلان ہوگیا، اس کے لئے نزدیکی شهر جا کر ٹیسٹ دینا تھا۔ جہاں ہم کو ٹیسٹ کے لئے جانا تھا، وہ ہمارے گائوں سے تقریبا تیس کلومیٹر دور تھا، سارے طلباء و طالبات اس امتحان کی تیاریوں میں لگ گئے۔ کلاس ٹیچر نے پروگرام کا انچارج راج ویر کو مقرر کر دیا۔ اس نے

حساب لگایا اور جانے کا خرچا ہر لڑکے اور لڑکی پر ڈھائی سو روپے رکھا۔ سبھی نے جانے کی تیاری کرلی۔ پھر پتا جی نے راج ویر کو بلوایا اور میرا خیال رکھنے کو کہا تو میں اور بھی زیاده خوش ہوگئی۔ دل سے چاہتی تھی کہ وہ کسی طرح مجھ سے بات کرے۔ پتا جی کے بلانے کے بعد اس نے مجھ سے بات کی۔ راج ویر اور میں نے قریبی پڑوسی ہونے کے ناتے ایک ساتھ پیکنگ کی۔ آخرکار ہم شہر پہنچ گئے۔ یہاں مجھ کو راج ویر کے قریب آنے کا زیادہ موقع ملا کیونکہ میرا اور اس کا سامان ساتھ تھا، اس کے کپڑے میرے بریف کیس میں تھے اور میرا کچه سامان اس کے بیگ میں تھا تبھی روزانہ میں اس کو اپنی پسند کا جوڑا نکال کر دیتی، اس کا خیال رکھتی، اتنی خدمت کرتی کہ کسی نے اتنی خدمت نہ کی ہوگی۔ اس طرز عمل نے اس کا دل موہ لیا۔ شہر میں ہم نے پانچ دن گزارے۔ یہ دن یوں منٹوں میں گزر گئے کہ پتا ہی نہ چلا۔ میرے لئے تو یہ پانچ دن پانچ منٹ کے برابر تھے مگر یہ اتنے قیمتی دن تھے کہ ان پانچ دنوں میں، میں نے اپنی منزل کو پا لیا تھا۔ اب میں اپنے آپ کو بہت خوش نصيب سمجهنے لگی تھی۔ وہ راج ویر تها، مجھے لگتا تھا کہ اس کا پیار پا کر میں راج کماری ہوگئی ہوں۔ میں نے اس کو اپنے دل کا مالک مان لیا۔ ٹیسٹ ختم ہوگئے تو ہم اپنے گائوں واپس آگئے۔ اب ہم روزانہ کلاس میں ملتے مگر دوسروں سے خوف کی وجہ سے کم بات کرتے تھے۔ سالانہ امتحان کی تاریخ آگئی تب لگا کہ یہ وہ تاریخ ہے جو سندیسہ لائی ہے، اس بات کا کہ ہم زندگی بھر کے لئے بچھڑ جائیں گے۔ سالانہ امتحان کی تیاری میں بھی اس نے مدد کی مگر باتیں کرنے کا زیاده موقع نہیں ملتا تھا کیونکہ ماتا جی یا بہن جی سامنے بیٹھ جاتی تھیں۔ امتحانوں کے بعد الوداعی پارٹی ہوئی، وہ ہمارے بچھڑنے کی آخری تاریخ تھی۔ اس دن گروپ فوٹو بھی ہوا۔ یوں یہ زندگی کے بچھڑنے کا یادگار دن ہوگیا۔ اپنی الوداعی تقریر میں اس نے کہا تھا کہ آج ہماری زندگی کے ایک باب کا خاتمہ ہورہا ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ اگلے موڑ پر ہم آپس میں مل سکیں گے یا نہیں...؟ اس دن میری آنکھوں میں آنسو تھے اور اس کی آنکھیں بھی پرنم تھیں۔ یوں ہم ہاتھ ہلاتے اس اسکول کے گرائونڈ سے نکلتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ راج وير لڑکوں کے اسکول میں چلا گیا اور میں نے گرلز اسکول میں داخلہ حاصل کرلیا۔ اب ہمارے ملنے کا کوئی موقع نہیں رہا تھا۔ اسکول کا ٹائم صبح آٹھ بجے تھا جبکہ اس کے اسکول کا ٹائم نو بجے تھا۔ وہ صبح روزانہ مندر جاتا تھا جو ہمارے اسکول کے راستے میں پڑتا تھا۔ ایک روز سویرے جب میں اسکول جا رہی تھی، اسے مندر سے لوٹتے دیکها تبھی میں نے اسکول جانے کا ٹائم صبح سات بجے مقرر کرلیا کیونکہ یہی وقت اس کے مندر جانے کا تھا۔ اس طرح ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہم مندر میں چھپ چھپ کر ملنے لگے۔ کسی بڑے تہوار پر تو باقاعدہ ملاقات ہو جاتی تھی۔ میں نے آٹھویں کا امتحان پاس کرلیا اور اب میں نویں میں تھی جبکہ راج و پر ایک کلاس آگے پروموٹ ہو گیا تھا کہ وہ ہمارے ضلع میں اول آیا تھا۔ میرے دو بھائی تھے، بڑے کا نام کمار اور چھوٹے کا آجیت تھا۔ میں آجیت کے ذریعے راج ویر سے نوٹس منگوا لیتی تھی۔ اس کے بعد میں نے نوٹس کی کاپی پر خط لکھنے شروع کئے اور کسی کو پتا نہیں چلا۔ یوں ہم محبت کی منزلوں تک پہنچے۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ ایک دوسرے کے بغیر جینا مشکل ہوا۔ جب اس نے دسویں کا امتحان دیا تو الوداعی پارٹی میں گیا، وہاں دو طلبہ تنظیموں میں جھگڑا ہوگیا۔ کچھ لڑکے زخمی ہوئے اور کچھ جیل چلے گئے۔

راج ویر بھی جیل چلا گیا۔

اس کے جیل جانے کے بعد میرا برا حال ہوا کہ بیان نہیں کر سکتی، مجھ کو بخار ہوگیا۔ والدین پریشان تھے اور میں نیم پاگل سی ہوگئی تھی۔ جب بھی ہوش آتا تو میں اس کے لئے دعا مانگتی۔ اگر زندگی میں کچھ بھگوان سے مانگا تو وہ اس کی رہائی تھی۔ آخر بھگوان نے وہ دن بھی دکھایا جب وہ جیل سے چهوٹ کر آگیا۔ اس کی چاہت میں اتنی بے خود ہوگئی کہ یہ بھی پتا نہ چلا کہ میں اتنی بڑی ہوگئی ہوں۔ بغیر چادر لئے میں اس کے گھر چلی گئی۔ فکر اور پریشانی نے مجھ کو بہت دبلا کر دیا تھا۔ جب میں اس سے ملی تو وہاں بھی وہی صورتحال تھی۔ اس نے بتایا کہ تم مجھ کو جیل میں اتنی یاد آئی ہو کہ کبھی اتنا سوچا بھی نہ تھا۔ ادهر ماتا پتا، بھائی سب پریشان کہ میں کہاں گئی ہوں۔ ایسے بغیر پوچھے کبھی میں کہیں جاتی نہ تھی۔ جب واپس لوٹی سخت ڈانٹ پڑی۔ پتا جی اس قدر برہم تھے کہ کیا بتائوں مگر مجھ کو ان کی ڈانٹ سے کچھ قلق نہ ہوا کیونکہ ساڑھے تین ماہ کی اذیت بهری جدائی کے بعد راج ویر سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ رہا ہوگیا تھا۔ میں بے حد خوش تھی۔ بھگوان نے میری سن لی تھی۔ پریشانی ختم ہوئی تو بیماری بھی جاتی رہی۔ داخلے شروع تھے لہذا ہم دونوں نے فارم بھرے۔ یہاں کالج ایک ہی تھا۔ ایک بار پھر ایک ہی ادارے میں پڑھنے کی وجہ سے ہم مل سکتے تھے۔ اس کا تو جیل جانے کی وجہ سے سال ضائع ہوا تھا اور اب ہم پھر برابر کلاس میں آگئے تھے۔ وقت گزرنے لگا، ہم نے انٹر کا امتحان بھی دے دیا۔ انٹر کے بعد ہم نے دادو جانے کا پروگرام بنایا کیونکہ ایک دوسرے کے بغیر سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا۔ دادو میں اس کی بہن کا گھر تھا جبکہ میرے ماموں وہاں رہتے تھے۔ اس کے بہنوئی صبح سے دکان پر چلے جاتے تھے، گھر میں صرف اس کی بہن اور ان کی چھوٹی سی بچی ہوتی تھی۔ میں اس بچی کو بہت زیادہ پیار کرتی تھی۔ بہن تو کام میں مصروف ہوتی، میں اور راج ویر بیٹھ کر خوب باتیں کرتے۔ ہم اکیلے ہوتے مگر کبھی اس نے تنہائی کا فائدہ نہ اٹھایا، کبھی مجھ کو چھوا تک نہیں، ہم فاصلے سے بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔ ابهی مجهے دادو آئے ایک ماہ ہوا تھا کہ ایک منحوس خبر آئی کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ ماموں اور ممانی کے ساتھ سیدهی گهر آئی، وہ بھی واپس پہنچ گئے۔ اب ہمارے ملنے یا خط لکھنے کا کوئی چانس نہ تھا۔ بڑے بھائی، پتا

جی کے دیہانت کے بعد گھر کے سربراہ بن گئے تھے۔ وہ تو والد سے بھی سخت تھے۔ ماتا جی سے کہا کہ اب اس کا جلد از جلد رشتہ ڈھونڈ لو کیونکہ مزید کالج میں نہیں پڑھانا ہے۔ والدہ نے رشتے کے لئے ملنے والیوں سے کہا تو رشتے بھی آنے لگے۔ ایک لڑکا بھائی کو پسند آ گیا، اپنے طور پر ہاں کر دی، مجھ سے پوچھا تک نہیں۔ میرا یہ عالم کہ بڑے بھائی کے آگے کچھ بولنے کی ہمت نہ تھی، میں بے ہوش ہوگئی۔ اس کے بعد اتنی بیمار پڑی کہ موت کی دہلیز تک پہنچ گئی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کروں کیونکہ میں لڑکی تھی، کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ کبھی سوچتی تھی کہ بھاگ کر راج ویر سے شادی کر لوں مگر ایسا قدم کے اٹھانے کی بھی سکت خود میں نہ پاتی تھی بلکہ راج ویر بھی شاید ایسا کرنے سے منع کرتا کہ عزت دار خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ میں نے چاہا وہ کم از کم اپنی محبت کے معاملے میں اپنی ماں کو ہی آگاہ کر دے لیکن وہ ماں کو بھی نہ بنا سکا، نہ ہی ہماری شادی کے متعلق اپنی ماتا جی سے بات کی۔ میں تو پھر بھی لڑکی تھی اور میرے لئے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ زبان کھولتی۔ وقت ٹھہرتا ہے اور نہ کسی کا انتظار کرتا ہے۔ میری شادی کی تاریخ بهائی نے طے کر دی اور میں کسی بھی طرح راج تک یہ بات نہ پہنچا سکی کہ میں پرائی ہونے جا رہی ہوں۔ وہ دن بھی آ گیا جب میرے بابل کے دروازے پر شہنائی بجی اور سسرال والے مجھے بیاہنے آ پہنچے لیکن میری ڈولی نہ تھی، یہ میری ارتھی تھی جو وہ اٹھانے آرہے تھے۔ بے تحاشا رو رہی تھی، بار بار بے ہوش ہو رہی تھی۔ خدا | جانے کس نے اس کو خبر کر دی کہ وہ میری ڈولی کا کہار بن کر آ گیا۔ میں نے پردے کی اوٹ سے دیکھا۔ راج ویر کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور وہ دیوانہ لگ رہا تھا۔ جس کو اسکول میں ساری لڑکیاں چاہتی تھیں، آج وہ میری چاہت میں پاگل سا لگتا تھا۔ وہ مخبوط الحواس سا بارات کے آگے آگے چل رہا تھا جیسے مجھ کو عزت سے رخصت کرنا اسی کی ذمہ داری ہو۔ اچانک میرے بڑے بھائی کی اس پر نظر پڑی تو وہ پریشان ہوگئے کیونکہ راج ویر کا لباس بھی آجلا نہ تھا، وہ کسی طرح براتی نہیں لگ رہا تھا۔ کچھ سوچ کر کمار بها خاموش رہ گئے اور اس کو آخر تک برداشت کیا تاہم ان کی نظر اسی پر ٹکی رہی کہ کہیں کوئی غیر معمولی واقعہ رونما نہ ہو جائے۔ بھگوان کی کرپا سے معاملہ شانت رہا، بخیر رخصتی کا مرحلہ انجام تک پہنچا اور میں اپنے پتی کے گھر آگئی۔ وه وقت میرے لئے قیامت کا تھا۔ وہ ساتھی ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا تھا، نظروں سے اوجھل ہوگیا جو ہمیشہ دل میں رہتا تھا، جو آج بھی دل میں رہتا ہے مگر اس دن کے بعد پھر راج ویر کا پتا نہیں وہ کہاں گیا۔ اب جب میکے جانا ہوتا، دعا کرتی کوئی راج ویر کا ذکر لبوں پر لائے، کوئی اس کا تذکرہ چهیڑے تو کہوں کہ بتائو تو سہی وہ کیسا ہے، کہاں ہے...؟ خوش ہے کہ اداس ہے۔ وہ ایک لائق طالب علم تھا، اس نے خاندان اور وطن کا نام روشن کرنا تھا، کچھ بننا تھا، کچھ کر کے دکھانا تھا۔ اسے سارے اساتذه فخریہ کہتے تھے۔ دیکھ لینا یہ ہونہار لڑکا ہم سب کا نام روشن کرے گا۔ ایک دن پڑوس سے ماسی جینی آئی۔ امی سے دعا سلام تھی۔ میں وہاں بیٹھی تھی، وہ باتوں باتوں میں پڑوسن کے دکھ کا تذكره لے بیٹھی، بولی۔ ہائے بے چارے چندر جی کے خاندان کو جانے کس کی نظر لگ گئی، مہینوں گزر گئے ابھی تک ان کے بیٹے راج ویر کا سراغ نہیں ملا۔ آخری بار رانی کی شادی میں دیکھا گیا تھا، اس کے بعد گھر نہیں آیا، جانے کہاں چلا گیا۔ ماسی جینی کی باتوں پر میرے کان کھڑے ہوگئے۔ چپ نہ رہ سکی۔ پوچھ ہی لیا۔ ماسی، وہ کہاں گیا؟ کیوں نہیں لوٹا؟ ارے بیٹی! یہی تو کوئی نہیں جانتا، اس کے پتا ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے ہیں، ہر جگہ تلاش کیا، ہر رشتے دار کے گهر معلوم کیا، دوستوں سے پوچھا، کوئی کچھ نہیں بتاتا۔ لگتا ہے اس نے دریا میں کود کر جان دے دی ہے اور اس کے مرده تن کو مچھلیاں کھا گئی ہیں۔ ماسی کے یہ الفاظ میرے دل پر گھونسے کی طرح لگے کیونکہ راج ویر اکثر کہا کرتا تھا۔ رانی، اگر تم کسی اور کی ہوگئیں تو دیکھ لینا میں اندھے کنویں میں کود کر جان دے دوں گا یا پھر دریا میں چھلانگ لگا دوں کیونکہ مجھے تیرنا تو آتا نہیں، اس لئے اچھا ہے کہ مجھ کو مچھلیاں کھا جائیں۔ آف میرے بھگوان! کیا ایسا ہی ہوا ہوگا۔ کاش میں جان سکتی، کسی کو بتا سکتی کہ

نے میں جو ایک اندھا کنواں ہے، قبرستان کے پرلی طرف، وہاں جا کر تو دیکھو، کسی کو اندر آثارو شاید تم کو اس س ے پریمی کا جسد خاکی پنجر کی صورت میں پڑا مل جائے، اگر وہاں نہیں ملا تو یقین کرو کہ وہ دریا میں ہی ہوگا مگر وہاں تو اب تلاش کرنا بیکار تھا۔ دل نے اندر سے سسکیاں لیں مگر ضبط کیا، آنسو نہ گرا سکی کہ یہ آنسو میری رسوائی کی گواہی بن جاتے اور میرے پتی کو اگر شک بھی ہو جاتا تو میرا جیون تہس نہس اور ان کی خوشیوں کا کریا کرم ہو جانا لازمی تھا۔ آج اس واقعے کو بیتے چالیس برس ہو چکے ہیں، میری جوانی بڑھاپے میں تبدیل ہو چکی، میرے پتی سورگ باش ہوگئے، میرے بچے جوان ہوگئے ہیں۔ کبھی کبھی وہ مجھ کو کوئی کہانی سنانے کو کہتے ہیں، ان کی فرمائش پر جی کرتا ہے اپنی ہی کہانی شنا دوں۔ کسی کو سنا کر دل کا بوجھ تو ہلکا کر لوں مگر نہیں سنا سکتی، مجھ میں ہمت نہیں ہوتی اور بچوں میں اتنی سوجھ بوجه نہیں ہے کہ وہ اس کہانی کی گہرائی اور تقدس کو سمجھ سکیں، وه تو دو پریمیوں کو پاگل اور دو چاہنے والوں کو دوشی ہی سمجھیں گے، تب ان سے حال زار کہنے کا کیا حاصل.

Post a Comment

0 Comments