Search Bar

Janey Kesa Dost Tha Teen Auratien Teen Kahaniyan

 



والد صاحب کی جوتے بنانے کی ایک چھوٹی سی فیکٹری تھی۔ بڑا بھائی بیمار ہوا تو علاج کے لئے اسپتال لے گئے۔ بھائی کا جگر خراب ہوگیا تھا۔ اسپتال والوں نے ایک بڑے اسپتال لے جانے کا مشورہ دیا جہاں ایسی جدید مشین تهیں جو کسی اور اسپتال میں نہ تھی۔ ہم کراچی آگئے۔ ہوٹل میں کمرہ لیا اور بھائی کو اسپتال داخل کرا دیا۔ کافی دن علاج ہوتا رہا مگر شفایابی نہ ملی اور میرے والد کی امیدوں کا چراغ بجھ گیا۔ یہ اسپتال اتنا مہنگا تھا کہ لاکھوں کا بل آگیا۔ ابا کی فیکٹری بک گئی اور حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ قرض پر قرض چڑھنے لگا۔ والد نے اس دوران نوکری کی بھی کوشش کی، مگر نہ ملی۔ یہاں تک کہ نان شبینہ کے لالے پڑ گئے۔ برے وقت کا ساتھی کوئی نہیں ہوتا۔ رفتہ رفتہ دوست احباب نے ساتھ چھوڑ دیا۔ قرض دار الگ تنگ کرنے لگے۔ ابا اس قدر ذہنی دبائو کا شکار ہوئے کہ ان کے دماغ کی نس پھٹ گئی اور ہم باپ کے سایے سے بھی محروم ہوگئے۔ میرے چار ماموں تھے۔ ان سب نے مل کر امی کو کرائے کا مکان لے کر دیا۔ ہم والده سمیت سات نفوس تھے۔ چاروں ماموں مل کر ہمارا خرچہ اٹھانے لگے۔ ہر ماه باری باری راشن لاکر دینے لگے، یوں کچھ تنگی کے باوجود ہماری عزت سے گزر بسر ہونے لگی۔ میں بہت حساس تھی۔ اچھا وقت دیکھا تھا، اچانک جو حالات میں تبدیلی آئی ذہن نے اس کا گہرا اثر قبول کیا۔ دنیا کی رونقوں سے دلچسپی ختم ہوگئی۔ کوئی لطیفے سناتا، کوئی مزاح کی بات کرتا، | مجھ کو ہنسی نہ آتی، اکیلے میں بیٹھتی آنسو بہنے لگتے۔ چھپ کر واش روم میں دیر تک روتی رہتی۔ باہر آتی آنکھیں سرخ ہوتیں۔ اداسی نے رفتہ رفتہ دل کو مٹھی میں لے کر مسلنا شروع کردیا۔ میٹرک میں بھی پڑھائی کی طرف دھیان نہ دے پائی۔ میری چپ نے مجھ کو کھانا شروع کردیا تھا۔ پہلے تو گھر میں کسی نے توجہ نہ دی، جب میں نے ہنسنے بولنے کے ساتھ ساتھ کھانا پینا بھی چھوڑ دیا تو والده چونکیں۔ روز بہ روز میں کمزور اور پیلی پڑتی جاتی تھی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ بیٹھے بیٹھے گرنے لگتی، ہاتھ پائوں لرزنے لگتے اور حالت غیر ہوجاتی۔ والده گهبرا گئیں، بڑے ماموں کو بلاکر میری کیفیت بتائی۔ وہ ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اس کو کوئی مرض تو نہیں ہے مگر بہت سوچنے سے ڈپریشن میں چلی گئی ہے۔ اگر ابھی توجہ نہ دی تو آگے چل کر مرض بڑھ سکتا ہے۔ اس کو خوش رکھیں، گهمائیں پھرائیں، اچھی امید دلائیں۔ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے اس کے ذہن پر دبائو پڑے۔ اس کے ساتھ انہوں نے کچھ سکون کی دوائیں بھی دیں۔ ڈاکٹر کی ہدایات پر گهر والے زیادہ دن تک عمل نہ کرسکے۔ امی بے چاری کو سو بکھیڑے تھے۔ میرا مرض بڑھنے لگا، دورے پڑنے لگے۔ ماں گهبرا گئیں، کسی نے کہا کہ سایہ ہوگیا ہے، اثرات ہیں، دم درود کرائیں، وہ مجھے لے لے کر دم کرنے والوں کے پاس پھرنے لگیں۔ غرض گھر کا سکون میری وجہ سے غارت ہوگیا۔ منجھلے ماموں نے اپنے ایک دوست سے تذکره گیا۔ ان کی بہن کے ساتھ بھی کچھ ایسا مسئلہ ہوچکا تھا۔ اس شخص نے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر کا پتا دیا۔ ماموں ان کے پاس لے گئے۔ وہ ایک بہت اچھا اور سمجھ دار ڈاکٹر تھا۔ اس نے کچھ دن بلایا۔ میرا علاج کیا۔ کونسلنگ کی، حالات جانے اور الله کی مہربانی سے میری حالت سنبھل گئی۔ میں دکھ، رنج اور مایوسی کی کیفیت سے نکل آئی، مگر میٹرک کا امتحان نہ دے سکی، جس کا مجھے آج تک قلق ہے۔ میں ہر نماز کے بعد ماموئوں کی درازئ عمر کی دعا کرتی تھی کہ یہ ہماری سرپرستی نہ کرتے تو کیا ہوتا۔ ان کی بیویوں نے خاصا ادھم مچایا تو بھی انہوں نے امی کا ساتھ نہ چھوڑا۔ میرا بھائی عرفان مجھ سے دو برس بڑا تھا۔ میں اس کے لئے بھی دعا کرتی کہ خدا اس کو نیک بنائے۔ بڑے بھائی کے بعد اب وہی ہماری امیدوں کا سہارا تھا۔ دن گزرتے رہے، یہاں تک کہ میرا بھائی اٹھارہ سال کا ہوگیا۔ بڑے ماموں نے اس کو اپنی دکان پر رکھ لیا۔ اور تنخواہ دینے لگے۔ اس طرح ہمارے دن پھرنے لگے۔ بھائی کو کاروبار کا تجربہ ہوگیا تو ماموئوں نے مل کر اس کو علیحده دكان کردی۔ الله تعالی نے برکت ڈال دی اور بھائی کی آمدنی میں روز بہ روز اضافہ ہونے لگا۔ ہمسایوں کی طرف آنا جانا رہنے لگا۔ پڑوسن کے توسط سے میرے لئے ایک رشتہ آگیا۔ ان دنوں میری عمر سولہ سال تھی، | چہرے پر نوخیزی کا روپ تھا۔ لڑکے والے امی کے پیچھے پڑ گئے، امی نے ماموں کو بتایا۔ انہوں نے بیوی سے کہا کہ میری بہن کے ساتھ جاکر رشتہ دیکھو اور مجھے بتائو۔ امی سیدھی سادی تهیں۔ ممانیوں نے لڑکا پسند کیا مگر زیادہ چھان بین کسی نے نہ کی۔ ماموں کو اچھی رپورٹ دی گئی۔ میرا رشتہ پکا کردیا۔ یوں میری جلدی شادی ہوگئی۔ میرے شوہر کا نام وجاہت تھا۔ اپنے نام کی طرح وجیہ اور خوبصورت تھے۔ عمر بھی ان کی انیس سال تھی۔ والدین کے لاڈلے اور نازوں کے پلے۔ کوئی سخت کام نہیں کرسکتے تھے۔ چھائوں میں پلے بڑھے، ذرا سی دھوپ سے کملانے لگتے تھے۔ کچھ دن مجھ سے پیار جتلایا، بعد میں غفلت برتنے لگے۔ صبح نکلتے تو رات کو دیر سے لوٹتے۔ ان کے والد سعودی عربیہ میں تھے۔ کوئی بڑا بھائی نہ تھا۔ ماں بے چاری لاکھ سمجھاتیں لیکن وجاہت ان کی ایک نہ سنتے۔ یہ بات بھی عجیب لگتی تھی کہ نئی شادی ہے پھر بھی گھر میں نہیں ٹکتے تھے۔ ایک دن بہت روئی، قسم دی کہ بتائیے آخر کہاں جاتے ہیں۔ کچھ نہ بتایا اور زیاده افسرده رہنے لگی۔ جلد ہی الله تعالی نے میری حالت پر رحم کھایا، امید سے ہوگئی۔ امید کی ایک کرن میری زندگی میں چمکی اور شادی کے سال بعد ایک بیٹی کی ماں بن گئی۔ میں نے جانا کہ اب وجاہت پلٹ آئیں گے۔ میری جانب نہ سہی اپنی بچی کی کشش تو ان کو ہماری طرف کھینچ ہی لائے گی، مگر انہوں نے بچی میں بھی دلچسپی نہ لی اور نہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا۔ بچی کو پاکر میرا دل شاد ہوا تھا، سوچوں کے بھنور سے نکل کر اپنی معصوم گڑیا کے پیار میں گم ہوگئی۔ وجاہت اپنے معمولات میں گم تھے۔ ہمیں کچھ علم نہ تھا کہ کہاں جاتے ہیں اور کہاں سے آتے ہیں۔ ان کے والد روپیہ بھجواتے رہتے اور یہ عیش اڑاتے رہتے۔ میرے سسر روپیہ وجاہت کے اکائونٹ میں ہی بھجواتے تھے کیونکہ ساس بینک کے معاملات جانتی نہ تھیں۔ والدہ کو پورا پورا خرچہ دے کر باقی روپیہ جانے کہاں خرچ کر آتے تھے۔ ان کے پاس ہمیشہ جیب میں بہت روپے ہوتے مگر معلوم نہ تھا کہاں خرچ کرتے ہیں۔ روز و شب گزرتے رہے، ان کے معمولات میں فرق نہ آیا۔ الله تعالی نے مجھے بیٹے سے نواز دیا جو ہوبہو وجاہت کی شکل تھا۔ اپنے شوہر کا پر تو سمجھ کر بیٹے کی محبت میں کھو گئی۔ بیٹے کی محبت نے مجھ کو شوہر کی فکر سے آزاد کردیا تھا۔ شادی کو بارہ سال گزر گئے۔ سسر صاحب اس جہان سے گزر گئے۔ ساس کا بھی دو سال بعد انتقال ہوگیا۔ بچے اسکول جانے لگے۔ میں پھر سے اکیلی ره کر سوچو کے بھنور میں پھنسنے لگی، مگر وجاہت کی روش میں سرمو فرق نہ آیا۔ وہ اسی طرح روز رات کو چلے جاتے اور صبح لوٹتے۔ اب تو گهر، بچوں اور ہم سب سے بالکل ہی بے نیاز ہوگئے۔ سسر کے بعد ان کی جمع پونجی کچھ عرصہ کام آئی پھر یہ ہاتھ خالی ہوگئے۔ گھر کے حالات میں ابتری آنے لگی۔ میں خرچ سے پریشان رہنے لگی اور وجاہت کبھی میری ماں، کبھی بھائی عرفان سے جاکر قرض مانگنے لگے۔ وہ اس وجہ سے انکار نہ کرتے کہ شاید بچوں کی خاطر قرض مانگتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ دیا اور وجاہت نے کبھی واپس نہ لوٹایا مگر یہ روپیہ وہ گھر اور بچوں پر صرف نہ کرتے۔ ان دنوں میں خرچے کے لئے اس قدر تنگ تھی کہ چیخ چیخ کر رونے کو جی کرتا تھا۔ امی کو نہ بتاتی کہ پریشان ہوں گی۔ ایک دن بڑے ماموں آگئے، میں رو رہی تھی اور کھانے کو کچھ نہ تھا۔ حتی کہ گھر میں بچوں کا دودھ بھی نہ تھا۔ ماموں نے پوچھا۔ کیا بات ہے کیوں پریشان ہو، خود پر قابو نہ پاسکی اور سب احوال کہہ دیا۔ وہ بھی فکرمند ہوگئے، کچھ رقم دے گئے۔ اگلے روز پھر آئے اور کہا کہ راشن میں جو چاہئے مجھے فہرست لکھ کر دے دو۔ بچوں کے دودھ کے لئے گوالے کو لگوا دیا۔ جو روز شام کو گھر دودھ دینے کو آنے لگا۔ اگلے دن وجاہت آئے۔ بتایا کہ اس طرح ماموں آئے تھے، راشن ڈالوا گئے ہیں۔ بھائی عرفان اور امی سے کیونکر کہتی، ان سے تو تم روپیہ لے جاتے ہو۔ آخر بتائو تو یہ روپیہ کہاں خرچ کرتے ہو۔ بولے روپیہ کسی کاروبار میں لگایا ہے، ایک دوست بزنس کرتا ہے اس کے کاروبار میں حصہ ڈالا ہے، زیادہ سرمایہ ایک ساتھ نہیں دے سکتا لهذا قسطوں میں دے رہا ہوں۔ جب منافع ملنے لگے گا تو میرے ساتھ تمہارے بھی دن پھر جائیں گے۔ جھوٹی امید کی کرن میرے دل میں جگا کر وہ لمبی تان کر سو گئے۔ انسان کا صبر کب تک ساتھ دیتا ہے۔ میں نے بھی حوصلہ ہار دیا تھا۔ ٹوہ لگا گئی کہ آخر یہ ایسی پراسرار زندگی کیوں اور کہاں گزار رہے ہیں۔ میرے اور بچوں کے پاس تو ہوتے نہیں اور نہ گھر کے مسائل میں دلچسپی لیتے ہیں۔ لاکھ کوشش کے باوجود میں اور میرے میکے والے نہ جان سکے۔ بھائی اور ماموئوں نے بالآخر میرا اور میرے بچوں کا خرچہ اٹھا لیا۔ وجاہت نام کے جیون ساتھی ره گئے۔ یہ کڑا وقت بیت گیا اور پھر وہ دن بھی آیا جب میرے بیٹے نے میٹرک پاس کرلیا اور کالج چلا گیا۔ بیٹی پھر بھی باپ سے پیار کرتی تھی۔ شاید بیٹیاں ہوتی ہی پیار کرنے کے لئے ہیں، لیکن میرا بیٹا ایان آب باپ سے شاکی رہنے لگا تھا۔ میں چاہتی تھی کہ وہ اپنے والد سے نفرت نہ کرے، لیکن اس کو باپ کا پیار ملا نہ تھا تو کیسے وہ ان سے محبت کرتا۔ اب ایان میں ایک قسم کی ضد اور چڑچڑاپن پیدا ہوگیا۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑنے لگتا۔ میں سمجھاتی تو اس کی سمجھ میں کوئی بات نہ آتی۔ ہر ماہ ایان میرے بھائی اور میرے ماموں سے خرچے کے پیسے اور راشن لاتا۔ مگر یہ سب اس کو گراں بھی گزرتا۔ یہاں تک بھی قابل برداشت تھا لیکن جب وجابت نے خرچے کی یہ رقم بھی ہم سے جھپٹنے کی کوشش کی تو ایان نے کھلم کھلا بغاوت کردی۔ اس پر باپ اور بیٹے میں ٹھن گئی۔ ہماری پریشانیاں بڑھنے لگیں۔ اب بچیاں بڑی ہوگئی تھیں۔ ایک روز وجاہت نے غصے میں ایان کو نکل جانے کو کہا، | وہ گھر سے نکلا تو واپس نہ آیا۔ میرا روتے روتے برا حال تھا۔ دن رات بیٹے کے لوٹ آنے کی دعا کرتی تھی لیکن وجابت کو ذره بهر بھی پروا نہ تھی کہ ہمارا جواں سال بیٹا کہاں گیا ہے، | کدهر ره رہا ہے اور کس حال میں ہے۔ سوچتی یاالله یہ کیسا باپ ہے جس کو اپنے جوان بیٹے کی فکر نہیں ہے۔ مجھے علم نہ تھا کہ ایان کیا دل میں ٹھان کر نکلا ہے۔ اس نے باپ کا پیچھا کیا اور اس پراسرار آدمی کی پراسرار زندگی کا وہ راز جان ہی لیا جس کی وجہ سے ہماری زندگی برباد تھی۔ کسی نہ کسی طرح اس ٹھکانے کا بھی پتا لگالیا جہاں وجاہت جاتے تھے، راتوں کو رہ جاتے تھے۔ یہ وجاہت کے ایک دوست کا مکان تھا جو اکیلا رہتا تھا۔ یہ اپنا وقت اس کے ساتھ گزارتے تھے اور روپیہ بھی اس پر نچھاور کرتے تھے۔ یہ دوستی ابهی کی نہیں، لڑکپن سے تھی، اس سے اقرار کیا تها کہ عمر بھر شادی نہیں کروں گا تاکہ ہماری دوستی کے درمیان کوئی اور نہ آجائے مگر والدین کے دبائو میں شادی کرلی۔ میرا بیٹا جب اس مکان کے اندر گیا تو باپ کو اس عجیب و غریب دوست کے همراه پاکر حیرت زدہ رہ گیا۔ وجاہت نے اس کو گالیاں دیں، تب وہ بھی طیش میں آیا اور پستول نکال لیا۔ اس چھینا جھپٹی میں فائر ہوگیا اور گولی وجاہت کے دوست کو لگی، وہ دم توڑ گیا۔ حیرت تو سب کو اس وقت ہوئی جب باپ نے بطور چشم دید گواہ بیٹے کے خلاف گواہی دی اور اس کو پکڑوا دیا۔ اس کو دوست کے مرنے کا اس قدر صدمہ تھا کہ اپنے بیٹے کو پھانسی کی سزا سے بچانے کو وکیل بھی نہ کیا۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے کہیں چلا گیا۔ مگر ہماری زندگی میں عمر بھر کے لئے اندھیرے انڈیل گیا۔ آج بھی سوچتی ہوں خدا جانے وہ کیسا دوست تھا اور وجاہت سے اس کی دوستی کس قسم کی تھی۔

Post a Comment

0 Comments