Search Bar

Chirag Jalane Wali Thi | Teen Auratien Teen Kahaniyan | Urdu Moral Story | Moral Story

 




میں متوسط طبقے کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی کہ جہاں بھوک کی بیماری کو کوڑھ کے مرض کی طرح خوب چھپایا جاتا ہے۔ تبھی ظاہری سفید پوشی آدمی کو گھن کی طرح کھانے لگتی ہے۔ ابا بھی حالات کے بھاری پاٹوں کے بیچ مدت سے پس رہے تھے مگر أف نہیں کرتے تھے۔ شرافت اور ظاہر داری کو کند چھریوں سے معاشی مسائل کی بے رحم فوج کا مقابلہ کرتے کرتے وہ نڈھال ہوچکے تھے، یہاں تک کہ وہ ایک بوسیده دیوار کی مانند ڈھے گئے۔ جب والد صاحب ریٹائر ہوئے تو مہنگائی نے ہم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سونے پہ سہاگہ کہ انہی دنوں تاریخی سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ ایک پنشن یافتہ مدرس مع اہلیہ اور چھ بچوں کے اس سیلاب کے تند ریلے سے بری طرح متاثر ہوا۔ دو بچوں کی تعلیم رہی ایک طرف، اب تو مسئلہ دال روٹی کا تھا اور کوئی ذریعۂ معاش نہ تھا۔ بڑے بھائی کالج میں زیر تعلیم تھے اور میٹرک کے بعد میں نے سلائی سینٹر سے دو سالہ ڈپلوما کیا تھا مگر کہیں نوکری نہ مل رہی تھی۔ انہی دنوں حکومت کی جانب سے دیہاتوں میں کچھ دستکاری اسکول کھولے گئے۔ یہ ایسے دور افتاده گائوں میں تھے کہ جہاں شہر سے ہنرمند معلمات جانے سے کتراتی تھیں۔ ہمارا شہر ایک ایسے ہی دیہات سے ملحق تھا۔ اپنے حالات کو محسوس کرتے ہوئے میں نے بھی فیصلہ کیا کہ کسی دیہات کے سینٹر میں ملازمت کی خاطر درخواست گزار دوں۔ ہمارے خاندان میں ان دنوں کسی لڑکی کا ملازمت کرنا معیوب خیال کیا جاتا تھا مگر برا ہوا مفلسی کا کہ اچھے اچھوں سے ایسے فیصلے کرا دیتی ہے کہ جو وہ نہیں کرنا چاہتے۔ کچھ رشتے داروں نے سمجھایا بھی کہ ابھی ہمارا معاشرہ اس قابل نہیں ہوا ہے کہ شرفا کی بیٹیاں دور دیہاتوں میں اکیلی سفر کرکے جائیں۔ مجھ کو مگر اپنے گھر کے معاشی مسائل کی فکر تھی، ہر کسی کی سنی ان سنی کردی۔ ابا کو راضی کیا اور انہوں نے اپنے ایک واقف کار سے کہہ کر مجھ کو ایک دستکاری اسکول میں لگوا دیا۔ اسکیم کے تحت جس قصبے میں اسکول قائم کیا جانا ہوتا، وہاں پہلے ایک کمیٹی بنائی جاتی جس کے صدر، سیکرٹری اور خزانچی و غیره کا چنائو ہوتا۔ یہ کمیٹی اسکول کے لئے مفت عمارت فراہم کرتی اور معلمات کی رہائش کا بھی بندوبست کرتی۔ قریبی آبادی کے گھروں سے لڑکیوں کے والدین کو بھی آماده کرنا پڑتا کہ وہ اپنی بچیوں کو اسکول بھیجیں۔ لوکل گورنمنٹ صرف مشینیں اور گرانٹ مہیا کرتی، معلمات کو تنخواہ کے لئے کمیٹی کے سیکرٹری یا صدر کا دست نگر ہونا پڑتا۔ اس مفید اسکیم کا یہی سقم تها کہ اس کی معلمات مکمل طور پر مقامی کمیٹیوں کے ممبران کے رحم و کرم پر ہوتیں۔ میں نے والد کو ہمراہ چل کر ساتھ رہنے پر آماه کیا اور ہمت کرلی۔ جب پہلی بار قصبے کے اسکول گئی تو سیکرٹری صاحب مجھے اپنے گھر لے گئے جہاں ان کی بیوی اور بچیاں موجود تھیں۔ انہوں نے مجھ کو اپنے مکان کی چھت پر بنے چوبارے میں ٹھہرایا کہ ابھی اسکول کی عمارت زیر تعمیر تھی۔ یہ سیکرٹری صاحب مجھ سے دگنی عمر کے تھے مگر مجھے باجی ... باجی کہتے نہ تھکتے تھے۔ میں ان کے گھر میں قیام پذیر تھی اور والد صاحب آن کی بیٹھک میں ہوتے تھے لیکن وہ اپنا زیادہ وقت مسجد میں گزارتے کیونکہ درس و تدریس ان کا پیشہ رہا تھا اور سیکڑوں طلبہ و طالبات کو قرآن پاک پڑھایا تھا۔ یہاں بھی في سبيل الله یہی نیک کام کرنے لگے۔ میں جلد ہی گھبرا گئی۔ سیکرٹری صاحب کے گھر رہنا عذاب تھا کہ وہ میرے ذاتی معاملات میں بھی مداخلت کرتے تھے، مثلا میرے ماموں اسی قصبے کے اسکول میں پڑھاتے تھے مگر مجھ کو ان کے یہاں جانے یا رہنے کی اجازت نہ تھی۔ خدا خدا کرکے معلمہ کی رہائش کے لئے کمرہ بن گیا اور میں وہاں شفٹ ہوگئی۔ مقامی لڑکیاں جو گھروں سے بالکل نہ نکلتی تھیں، وہ بھی آنے لگیں۔ میرا دل کام میں لگ گیا۔ اسکول ٹائم میں ابا جی مسجد میں رہتے اور چھٹی کے بعد جب وہ اپنے گھروں کو چلی جاتیں، والد میرے پاس آجاتے لیکن نماز کے وقت وہ پھر مسجد چلے جاتے اور میں اکیلی رہ جاتی۔ رات کے وقت میرے والد اسکول میں اور میں اپنی ایک شاگرد لڑکی کے گھر جاکر سوتی تھی جہاں پوری فیملی رہتی تھی۔ ان حالات میں، میں دیہات میں ہنر سکھانے کی خدمت کو ایک جذبے کے ساتھ سرانجام دے رہی تھی۔ یہ اتوار کا دن تھا، اسکول میں چھٹی تھی۔ والد صاحب ظہر کی نماز پڑھنے مسجد گئے ہوئے تھے کہ سیکرٹری صاحب آگئے۔ ان کے ہاتھ میں چار پانچ الفافے تھے۔ کہنے لگے۔ محترمہ! یہ تمام خطوط میں نے پڑھ لئے ہیں اور اب تم کو نہ ملیں گے۔ اوروں پر یہ عنایتیں اور ہم محروم رہیں۔ ہم بھی تو سینے میں دل رکھتے ہیں۔ اب اگر تم نے التفات سے کام نہ لیا تو میں ان خطوط سے تم کو بدنام کردوں گا۔ نوکری بھی ختم ہوجائے گی اور رسوائی بھی ہوگی۔ بات میری سمجھ میں نہ آئی۔ خطوط تو میرے گھر والوں کے ہوسکتے تھے یا رشتے داروں میں سے کسی کے اس میں تو ایسی کوئی بات نہ تھی کہ بدنامی کا باعث بنتی پھر یہ شخص مجھ کو کس بات کی دھمکی دے رہا تھا۔ وہ تو مجھ کو دھمکی دے کر چلا گیا اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ ضرورت کے علاوہ ایک جذبے کے تحت دیہات میں نوکری کرنے آئی تھی، یہاں الٹا لینے کے دینے پڑ گئے۔ اب پهپهو، خالہ اور خالو کی باتیں یاد آئیں کہ دیہات میں نوکری کرنے جارہی ہو، جہاں عورت کو تحفظ حاصل نہیں۔ کچھ دن گزرے۔ ایک روز میں رہائش گاہ کے صحن میں چارپائی پر بیٹھی تھی۔ ابا جی مسجد میں نماز پڑهنے گئے ہوئے تھے کہ سیکرٹری صاحب آگئے۔ ہاتھ میں فائل تھی۔ کہنے لگے۔ اس پر دستخط کرانے ہیں، تمہاری تنخواه کی بابت ہے۔ میں گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ سیکرٹری صاحب! میں آپ کو بڑا | بهائی سمجھتی ہوں۔ آپ اپنی بہن سے فاصلہ رکھئے۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو...؟ تم سے محبت ہوگئی ہے۔ یہ کہہ کر میری جانب بڑھے اور میں نے تبھی ان کو الٹے ہاتھ کا تھپڑ رسید کردیا۔ وہ چکرا گئے۔ شاید مجھ سے اتنی ہمت کی امید نہ تھی۔ یہ شکر کہ اسکول کی چار دیواری میں نصب گیٹ کھلا ہوا تھا ورنہ

جانے وہ کیا کر گزرتے۔ ترنت بهاگ کر کمرے میں گھس گئی اور اندر سے کنڈی لگا لی۔ وہ الٹے قدموں واپس چلا گیا اور کئی دن تک اسکول کا رخ نہ کیا۔ آب گومگوں میں تھی کہ والد صاحب سے بات کروں یا نہ کروں۔ میری خاطر ہی تو وہ اس عمر میں گھر سے دور رہ رہے تھے۔ بلا شبہ فورا کہتے کہ نوکری چھوڑ دو جبکہ میں ہمت سے حالات کا مقابلہ کرنا چاہتی تھی۔ سیکرٹری صاحب کی بھانجی بھی دستکاری سیکھنے آتی تھی۔ انہوں نے اس کو اسکول بھیجنا بند کردیا۔ اپنی جاننے والی چند فیملیوں کو روکا کہ جن کی لڑکیاں ان کے توسط سے اسکول أرہی تھیں تاکہ مطلوبہ تعداد پوری نہ رہے اور اسکیم ناکام ہوجائے۔ جب انہوں نے اس کی باتوں پر کان نہ دھرے تو میرے کردار کے بارے میں غلط باتیں کرنے لگا۔ مقامی لوگوں کی نظروں میں یہ ٹھیک آدمی نہ تھا۔ ان پر اس کے پروپیگنڈے کا اثر نہ ہوا بلکہ انہوں نے دبی زبان سے کہنا شروع کردیا کہ استانی تو اچھی ہے۔ اس کا بوڑھا باپ نیک آدمی ہے۔ بچوں کو مسجد میں بلا معاوضہ قرآن پڑھاتا ہے۔ بیٹی کے ساتھ دیہات میں رہنا قبول کیا ہے، اس سیکرٹری کو بدلنا چاہئے۔ اسکول میں دو لڑکیاں ایک سابق فوجی کے گھر سے بھی آتی تھیں۔ میری ہم عمر تھیں، اس وجہ سے میری سہیلیاں بن گئیں۔ یہ دونوں شادی شدہ تھیں۔ پریشان دیکھا تو پوچھا۔ کیا پریشانی ہے؟ میں نے ساری بات کہہ دی۔ خدشہ بھی بتایا کہ شاید والد صاحب اب مجھ کو نوکری نہ کرنے دیں اور واپس لے

جائیں۔ انہوں نے اپنے شوہروں سے کہہ کر مدد کرنے کی پیشکش کی۔ باقی لڑکیوں نے بھی میری بات سنی، سبھی پریشان ہوگئیں۔ دوسرے روز میں والد صاحب کے ہمراہ اس سابق فوجی کے گھر گئی۔ والد صاحب نے ان سے تمام احول بتایا۔ اس بھلے مانس نے مدد کا وعدہ کیا۔ اگلے روز سیکرٹری صاحب نے مجھ کو نوٹس بھجوا دیا کہ فی الحال فنڈ جمع ہورہا ہے لہذا کام کرنا ہے تو بغیر تنخواہ کے کرو۔ جب فنڈ مل جائے گا، تنخواه تبھی ملے گی۔ اتفاق سے والد صاحب کے ہاتھ میں یہ نوٹس تھا کہ وہ فوجی صاحب وہاں آگئے۔ انہوں نے یہ نوٹس پڑه لیا۔ وہ اس غیر قانونی اقدام پر سیکرٹری صاحب کے گلے پڑ گئے۔ کہا کہ اس علاقے میں جہاں کوئی آنا پسند نہیں کرتا، یہ بچی رضاکارانہ آگئی ہے اور تم اس کے ساتھ یہ برتائو کررہے ہو۔ تم کو شرم آنی چاہئے۔ اسی نیک انسان نے کونسل جاکر قرارداد پاس کرائی اور ڈی سی صاحب کو بھجوا دی جو اس تعمیری پروگرام کے نگراں تھے۔ انہوں نے فوری طور پر فیلڈ آفیسر مقرر کیا تاہم والد صاحب اس جھگڑے سے گھبرا گئے۔ مجھ سے استعفی دلوایا اور گھر لے آئے۔ اب علاقے کے لوگوں کو احوال پتا چلا تو سیکرٹری صاحب پر بن گئی۔ وہ ہمارے گھر آئے۔ والد صاحب کے پائوں پکڑ لئے کہ میں بال بچے دار ہوں،

خدارا معافی دے دیجئے۔ کیس پولیس تک کوئی لے گیا یا اوپر چلا گیا، میرے بچے بھوکے مر جائیں گے۔ انسانی ہمدردی سے مجبور ہوکر والد صاحب نے فیلڈ آفیسر کو راضی نامہ لکھ دیا۔ اسی سابق فوجی کی مہربانی سے مجھے ایک نزدیکی قصبے میں تعینات کردیا گیا۔ جلد ہی یہاں کے سیکرٹری کے تیور بھی تیکھے ہونے لگے۔ اسکول کی چھٹی کے بعد جب طالبات گھر چلی جاتیں، گمنام خطوط اسکول میں آگرتے، کبھی پتهر اندر آپڑتے۔ پتا چلا کہ پرانے سیکرٹری ان کے دوست ہیں اور وہی یہاں کے سیکرٹری سے یہ سب کچھ کروا رہے ہیں۔ جس کو والد صاحب نے اپنی نیک طینت طبیعت کی وجہ سے معاف کیا تھا۔ اس نے پھر سے میرے خلاف مقامی لوگوں کو بدظن کرنے اور مجھ کو رسوا کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا کہ اس کے منہ پر جو تھپڑ میں نے رسید کیا تھا، جس کی ضرب کو وہ ابھی تک نہیں بھلا سکا تھا۔ دنیا بری جگہ اسی کارن کہلاتی ہے کہ یہاں بد اچھا اور بدنام برا ہوتا ہے۔ اس بدبخت نے مجھ کو گهر گهر بدنام کرنے کی سازش کرکے میرا اس دیہات میں بھی نوکری کرنا دوبھر کردیا۔ اس قصے کا اختتام بالآخر اس طرح ہوا کہ رمضان شریف کا مہینہ آگیا۔ ستائیسویں کی رات لوگ ختم قرآن کی خاطر مسجد میں جمع تھے، میرے والد بھی وہاں تھے تبھی تین چار بدمعاش قسم کے آدمی دیوار پھلانگ کر اسکول کے احاطے میں آگئے۔ صدشکر میں جاگ رہی تھی، مصلے پر بیٹھی دعا کررہی تھی۔ آہٹ سن کر ڈر گئی اور کمرے میں چلی گئی، اندر سے کنڈی لگا لی اور شور مچایا۔ پڑوس میں عورتیں عبادت کی وجہ سے جاگ رہی تھیں اور ان کے مرد بھی مسجد میں تھے۔ میرا شور سن کر انہوں نے بھی شور مچایا اور آوازیں دینے لگیں تب وہ احاطے میں در آنے والے بهاگ گئے۔ جب والد صاحب آئے، دروازہ کھلوایا۔ میں تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اندر کمرے میں بند رہنے سے سر سے پائوں تک پسینے میں نہائی ہوئی تھی جبکہ غضب کی گرمی میں دیہات میں جہاں بجلی نہ ہو، بغیر پنکھے کمرے میں اتنی دیر کوئی بند نہیں رہ سکتا۔ میں اپنے گھر کے معاشی حالات میں ہاتھ بٹانے چلی تھی اور ذہنی مریض ہوتے ہوتے رہ گئی۔ صد شکر ایک سال بعد میرے بھائی کی تعلیم مکمل ہوگئی اور اس کی اسکول میں بطور استاد تعیناتی ہوگئی تو ہمارے جینے کا آسرا ہوگیا۔ آج بھی سوچتی ہوں کہ چراغ جلانے چلی تھی، دامن میں اندھیرے سمیٹ لائی۔ نوکری کر کے میں نے کون سا ایسا جرم کیا تھا کہ بدنامی کی صورت جس کی سزا ملی

Post a Comment

0 Comments